عاصم نے جونہی گاڑی پکی سڑک سے کچے میں اُتار کر چلانا شروع کی۔گاڑی زمین سے اٹھنے والے گردو غبار سے آلودہ ہونے لگی۔سفر کافی لمبا تھا ۔آس پاس قرب وجوار میں آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا ۔
عاصم کے ساتھ اس کا ملازم سر فراز بھی گاڑی میں موجود تھا۔دونوں کی عمروں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔عاصم ایک صاحب حیثیت پڑھا لکھا خوبصورت جوان آدمی تھا۔اور اس کا ملازم سر فراز بھی تعلیم یافتہ تھا جو عاصم اور اس کے والد کے کاروباری معاملات کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔
سر فرا زکی نظر دورچلنے والی چند خانہ بدوش لڑکیوں پر پڑی ۔کچے میں ان کو گرد آلود سڑک کے ساتھ ساتھ سخت پیاس بھی ستارہی تھی سر فراز نے خانہ بدوش لڑکیوں کو دیکھتے ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اپنے ملک عاصم سے کہا‘کام بن گیا ہے ۔
آپ تھوڑی دیر یہاں رکیے۔میں پانی کا انتظا م کرکے واپس آتا ہوں۔ سر فراز نے لڑکیوں سے پوچھا‘کیا وہ انہیں پینے کو کچھ پانی دیدیں گی۔میں خوشی سے پانی پلانے کا معاوضہ بھی اداکروں گا۔
تو لڑکیوں میں سے ایک نے تنک کر کہا‘بابو چلتے بنو کوئی اور کام ہے تو بولو یہاں پانی اتنی آسانی سے نہیں ملتا ۔
میل بھر کے فاصلہ سے جا کر پانی لانا پڑتا ہے ۔ان لڑکیوں کے درمیان میں کھڑی ایک لڑکی نے سر فراز سے مخاطب ہو کر کہا‘بابو میں آپ کو پانی پلادوں گی مجھے کسی معاوضے کی بھی ضرورت نہیں ۔اتنے میں عاصم بھی گاڑی چلاتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گیا اس نے لڑکی کی بات سن لی تھی ۔
اس نے لڑکی سے کہا کہ وہ پانی کی قیمت ضرور دیں گے کیوں کہ پانی اس نے مشکل سے حاصل کیا ہو گا۔پانی لینے کے بعد عاصم نے سوسو روپے کے تین نوٹ نکا ل کر تینوں لڑکیوں کو دے کر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔سر فراز نے گاڑی میں پانی ڈالا۔
جو نہی وہ پانی ڈال کر فارغ ہوا تو اس کی نظر گاڑی کے ٹائروں پر پڑی گاڑی کے دونوں ٹائروں میں ہوا نکل چکی تھی اب ان کا آگے جانا بھی محال تھا۔ لڑکیاں ابھی تک وہیں کھڑی تھیں ۔
انہیں پریشان دیکھ کر پانی دینے والی وہی لڑکی بول پڑی بابو کیا ہوا پریشان کیوں ہو؟عاصم نے ٹائروں کی جانب سے اشارہ کر کے کہا‘ان کی ہوا نکل گئی ہے اور ان کا آگے جانا مشکل ہو گیا ہے ۔
لڑکی نے جواب میں کہا۔صاحب آ پ فکر نہ کرو یہاں سے تھوڑی دور ہماری جھونپڑی ہے وہاں چلو۔میرا بھائی شہر سے ہوا بھروالائے گا۔سر فراز گاڑی کے پاس ٹھہر گیا اور عاصم ان لڑکیوں کے ہمراہ چل دیا۔وہ لڑکی جس کا نام بھولی عاصم کے ساتھ ساتھ تھی باقی دونوں لڑکیوں آگے آگے چل رہی تھیں ۔
بھولی نے عاصم کو اپنی جھونپڑی کے اندر لا کر ایک چار پائی پر بٹھادیا۔عاصم جوتا اتارنے کو جھکا ہی تھا کہ سامنے کی جھونپڑی کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی نظر آیا جو ایک لڑکی کو پیٹ رہا تھا۔ لڑکی زور زور سے چلا رہی تھی ۔عاصم یہ سب برداشت نہ کر سکا اور وہ لڑکی کو بچانے کے لئے اٹھ کر باہر جانے لگا تو بھولی نے اسے روک دیا۔
بھولی نے بتایا‘صاحب یہ یہاں روز کا معمول ہے آپ منہ ہاتھ دھولو۔عاصم بھولی کے ہاتھ میں قیمتی صابن دیکھ کر حیران رہ گیا۔
اس نے عاصم کو ایک تولیہ بھی لا کر دیا جو بالکل نیا تھا۔وہ اور حیران ہوا۔بھولی نے عاصم سے مخاطب ہو کر کہا صاحب آپ حیران نہ ہوں۔
ہم بھی اسی دنیا کے باسی ہیں ۔عاصم نے بھولی سے پوچھا کہ وہ بوڑھا اس لڑکی کو کیوں ماررہا تھا؟جواب میں بھولی نے بتایا کہ وہ بوڑھا اس لڑکی کا خاوند ہے ۔وہ لڑکی کو لاکھوں میں خرید کر لایا تھا لڑکی روز کما کر پیسہ شوہر کو لا کر دیتی ہے جس دن وہ پندرہ سو سے کم پیسے لاکر دیتی ہے تو اس دن ایسا ہی ہوتا ہے ۔
وہ یہ باتیں کررہی تھی کہ اس کی نظر اپنے بھائی حمید ا پر پڑی جوگدھا گاڑی لاتے ہوئے آرہا تھا۔اس نے عاصم کو اشارہ کرکے بتایا کہ وہ رہا بھائی۔حمید کی گاڑی میں پانچ یا چھ جوان عورتیں بھی سوار تھیں ۔اس کی گدھا گاڑی جونہی جھونپڑیوں کے آگے آکررکی ان عورتوں نے گدھا گاڑی سے چھلانگیں لگا کر نیچے اترنا شروع کر دیا۔
حمید اپنی جھونپڑی کے قریب پہنچا تو بھولی نے بھائی کے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے تبایا کہ بجلی اپنے اڈے سے آج بھی غائب تھی ۔وہ عورتیں گدھا گاڑی سے اُتریں تو اُن کے شوہر ان سے رقمیں وصول کرنے لگے۔
یہ سب دیکھنے کے بعد عاصم نے بھولی سے پوچھا کہ یہ بجلی کون ہے ۔
بھولی نے جواب میں بتایا کہ بجلی اس کے بھائی کی بیوی ہے اکثر دنوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا رہتا ہے اور بجلی ایک دو دن کے لئے غائب ہو جاتی ہے ۔حمید نے اپنی بہن سے اس اجنبی کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا”بھائی تھوڑی دوران کی گاڑی کھڑی ہے اور ان کا ساتھی بھی گاڑی کے پاس ہے ۔
ان کی گاڑی کے دوٹائروں کی ہوا نکل گئی ہے ۔حمید نے ایک شرط رکھی کہ عاصم ٹائر واپس لگا کر اپنی گاڑی میں اس کو بٹھا کر بجلی کو ڈھونڈدے گا کیونکہ حمید کو بجلی سے بہت محبت تھی ۔
عاصم نے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا تھا۔ بھولی نے عاصم کو بتایا کہ ان کے رسم ورواج کے مطابق اگر کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرنا چاہے تو وہ اس کی قیمت لاکھوں روپے ادا کرکے ہی شادی کر سکتا ہے یہ اس لئے کہ ان کے ہاں لڑکیاں کمائی کا ذریعہ ہیں ۔
میرے بھائی حمیدہ نے بھی لاکھوں روپے ادا کرکے بجلی سے شادی کی ۔
عاصم نے بھولی سے سوال کیا کہ کیا وہ بھی کچھ کما لیتی ہے ۔بھولی نے جواب دیا بابو جی اذان کی پہلی آوازسنتے ہی ہم سب لڑکیاں اپنے کام دھندے پر نکل جاتی ہیں اگر وقت پر ہم اپنے اڈوں پر پہنچ جائیں توا یک ہزار سے دو ہزار کمانا ہم لڑکیوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔
کیونکہ اکثر مرد پیسے دینے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کا حال بھی سنا دیتے ہیں جب شام کو ہم گھر واپس آتی ہیں تو گھر آتے ہی سب کمائی ہمیں مردوں کے حوالے کرنا پڑتی ہے ۔یہی روز کا معمول ہے ۔بھولی نے عاصم سے اس کی زندگی کے حالات کا پوچھا تو عاصم نے اس کو جواب میں بتایا کہ وہ شہر میں ڈاکٹر ہے اس کے والد بھی ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں یہاں سے ساتھ کلو میٹر دور ایک گاؤں دنیا پور ہے وہاں کے چوہدری میرے والد کے بچپن کے دوست ہیں میرے والد کی شدید خواہش ہے کہ میں ان کے دوست کی بیٹی سے شادی کر لوں ۔
اور میں اسی غرض سے چوہدری صاحب کی بیٹی کو دیکھنے دنیا پور جارہا ہوں مگر راستے میں گاڑی خراب ہو گئی ۔اور اب میں آپ کے سامنے ہوں اور شاید یہی میری منزل ہے ۔ان کی بات جاری تھی کہ بھولی کے بھائی حمید نے آکر بتایا کہ صاحب گاڑی ایک دم تیار ہے آپ اپنا وعدہ پورا کریں اور مجھے بجلی ڈھونڈدیں ۔
عاصم ،سر فراز اور حمیدا گاڑی لے کر شہر روانہ ہو گئے ۔ایک چورا ہے پر انہیں لوگوں کا ہجوم نظر آیا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کسی لڑکی کی لاش پڑی ہے جس کو ایک کار سوار پھینک گیا ہے لڑکی کے اردگرد پانی سو اور ہزار کے کئی کرنسی نوٹ بکھرے پڑے ہیں اور لڑکی کا چہرہ بھی مکمل کچلا گیا ہے ۔
یہ ساری بات سن کرحمیدا کے منہ سے چیخیں نکل پڑیں وہ سوچ رہا تھا کہیں یہ اس کی بیوی بجلی کی لاش نہ ہو۔پولیس نے جلدی سے لاش پر کپڑا ڈال دیا اور ضروری کارروائی کے بعد لاش ایمبولینس میں رکھوادی یوں یہ لوگ لاش نہ دیکھ سکے۔
ان تینوں نے واپسی کا سفر کیا تو سورج کی کرنیں زمین پہ پڑنا شروع ہو چکی تھیں جب یہ لوگ واپس پہنچے تو حمید اآگے چل پڑا جو نہی وہ اپنی جھونپڑی میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا بجلی وہاں موجود تھی اور بیٹی کو دودھ پلا رہی تھی ۔
خوشی سے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اس نے دوڑ کر اپنی بیوی کو گلے لگا لیا۔
وہ اس کو زندہ سلامت دیکھ کر بہت خوش ہورہا تھا ۔بجلی نے ایک زخمی بچی کو بچانے کیلئے خون کا عطیہ دیا تھا۔واپس گھر پہنچی تو اپنی لاڈلی کو دیکھ کر اس کے اندر ایک خیال نے جنم لیا کہ شہر کے لوگ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پڑھاتے ہیں میں بھی
اپنی بیٹی کو پڑھاؤں گی اور اس کو قوم کی بیٹی کے روپ میں ڈھالوں گی تاکہ یہ پڑھ لکھ کر ملک اور قوم کی خدمت کرے ۔
وہ سب بجلی کے خیالات اور باتیں سن کر حیران ہورہے تھے ۔
سر فراز اور عاصم بھی حیران تھے کہ ایک خانہ بدوش لڑکی اتنا بڑا جذبہ رکھتی ہے ۔عاصم نے فیصلہ کر لیا کہ وہ خانہ بدوش لڑکی بھولی سے شادی کرے گا چاہے جتنا پیسہ خرچ کرنا پڑے اور دنیا پور کے چوہدری کی بیٹی سے سر فراز کی شادی کروائے گا۔اوریوں عاصم کے اس فیصلے سے معاشرے میں ایک نئے اجالے کی کرنوں کے پھوٹنے کی امید نظر آرہی تھی۔
Sir Faraz, his employee with Asim, was also present in the car. There was no special difference in the age of nonsense. There was a pretty young man written in his position. And his employee Sir Faraz was also educated, Dad used to take care of business matters.
Sir Farq zikki was seen on a few naked girls who were watching the scene. He also starred them with a cold thirst along the road, Sir Faraz, looking at the adjacent girls, opened the car door and said to his country Asim. 'Has become a work.
You stayed here for a while. I'll come back and manage water. Sir Faraz asked the girls, 'Will they give some water to drink.' I will also pay a fee for happy water.
So one of the girls said to be tired and said, "There is no other thing going on walking, so we can not get water here so easily."
A girl standing in the middle of the distance from the distance to the mile has to be brought. A girl standing in front of the girls, headed by Sir Faraz, said, "I will drink water for you, I do not need any compensation." Asim also used to drive He reached her and she heard the girl's talk.
She told the girl that she would definitely give the price of water because the water she had gained hardly. After taking a bath, Asim took three hundred rupees worth of money and gave three girls also thanks. Joseph Faraz poured water in the car.
The one who did not get water started, then his eyes were on the tires of the car, on the tires of the vehicle, he had gone out and now he had to go ahead. Girls still stood there.
Why are you worried about what happened to them, watering the water that was worried about them? Why did you feel disturbed? Asim pointed out on the tires and said, 'My wind has gone out and it is difficult to go ahead.'
The girl replied in a reply. Do not worry. Do not worry, there's a little while from here. Let's go there. My brother will fill the city. As far as the Faras left the vehicle, Asim went with these girls. The rest of the girls, along with the name Bhali Asim, were going ahead.
Brother brought Asim into his hoop and saddled at one pie. There was a tremendous man with a hammer to see that a girl was stuck to a girl. The girl was walking loudly. Of course all this could not bear and she rose up to save the girl and went out to go out, so Bholi stopped her.
Bhooli said, 'This is a daily routine here, you wash your mouth.' Amazing brown soap was surprised by seeing the soap.
He also brought Asim to a towel which was completely new. He was surprised. The governor said to Asim, "Sir, you are not surprised."
We are also the same as the world .Prasim asked Bhalla why he was killing old girl? In reply, Bholi said that she is the oldest man of the girl. She bought a girl in millions of people earning money Money brings the husband on the day he takes less than 15 hundred rupees, then it is the same day.
She was talking about her eyes coming to her brother Hameed A while carrying a jigsaw vehicle. He pointed out to Asim and told that she was the brother. He had five or six young women riding on his car. In front of the carriers, the women started jumping from the donkey car and started to fall down.
When Haid reached near his bump, Bholi had asked brother to come late because he lost the power from his base even today. They get donkeys from the donkey, then their husbands get money from them.
After seeing all this, Asim asked Bhalei who is this electricity.
Bhali said in reply that the power of his brother's wife is a long fight between the two wives and electricity disappeared for two days. Had asked his sister about this stranger, he said, "Brother A little while car is parked and his partner is also on the car.
His car sculptures have gone out. Hameed a condition that Asim used to tire back the tire and screwed it in his car because Hameed had much love from electricity.
Asim promised to do so. Bhalla told Asim that according to his rituals, if a man wants to marry a woman, then she can marry her only after paying millions of rupees because she is the source of earning money.
My brother Hamida also paid electricity and married electricity.
Asim asked the nephew whether he earns anything too. The answer is answered: Babu Ghanan, the first voice of Ajanan, all of our girls go out on their faces, if we reach our bases on time, two thousand Making a thousand We do not have any difficulty for girls.
Because people often listen to their heart as well as listen to their heart when we return home in the evening, all the earnings we have to pay for men at home come home.The daily routine. Asked about the conditions of life, Asim responded to him that he is a doctor in the city, his father is also a big business person, from here a kilometer away village is world wide, Chaudhary is my father's childhood friend. Father's intense desire to marry his friend's daughter.
And I am going to go to World Bank to see Chaudhry's daughter in that way, but the car broke out on the way. And now I am in front of you and that's probably my destination. He was saying that Bhai's brothers Hamid came and told That morning the car is ready, fulfill your promise and find me the power.
Asim, Sir Faraz, and Humida were sent to the city by carrying a car. There is a straw, but they found crowded people asking that there is a body of a girl who has been thrown a car, water around the girl and thousands Many currency notes are scattered and the girl's face has also been completely crushed.
The whole thing was heard from the mouth of Adam, he was thinking that it was not his wife's body. He quickly put a cloth on the body and after taking the necessary action, the body was not kept in the ambulance as a guardian. Coins.
When these three traveled back, then the rays of the sun started coming to the ground when they came back, Hameed had walked in that which he entered into his bump, and saw that there was electricity there and milking the daughter. Was it
He got screamed with joy from his mouth, he ran and embraced his wife.
He was very happy to see him alive. The boy had donated blood to save an injured child. When he reached home, one thought inside him was born that the people of the city had their sons and their sons, I also teach daughters
I will teach my daughter and she will shield her as a daughter of a nation so that she should write and serve the country and nation.
They were surprised to hear all the power ideas and things.
Sir Faraz and Asim were also amazed that a housewife girl is such a big passion. The decision decided that the widow girl will marry Bhaioli, as much as she has to spend money and daughter-in-law of Chaudhry Sir Faraz. This decision of Aseem seemed to have a hope to overcome the rays of a new component in society.