یہ پندرہ سال پرانا قصہ ہے ان دنوں آصف اور رضوان میڈیکل کے طالب علم تھے ۔ایک مرتبہ کلاس میں وہ انسانی ڈھانچے کے بارے میں پڑھ رہے تھے کہ ٹیچر کی آوا ز آئی۔
”ڈےئر اسٹوڈنٹ ․․․․․کل سے جو 2چھٹیاں اسٹارٹ ہورہی ہیں اسلامی تہوار کے سلسلے میں ‘ان 2چھٹیوں کے بعد میں نے آپ سے پورے انسانی ڈھانچے کاٹیسٹ لینا ہے ۔
گھر آکر آصف اور رضوان کو پورا یقین تھا کہ وہ اس ٹیسٹ میں فیل ہو جائیں گے کیونکہ ابھی تک ان کے ذہن میں انسانی ڈھانچے کی کھوپڑی کی ہڈیوں کے نام اور ساخت واضح نہیں ہورہے تھے ۔وہ دونوں کتاب کھولے انسانی ڈھانچے پر لکھا ہوا مضمون پڑھ رہے تھے کہ اچانک آصف بولا۔
”اگر ہم کہیں سے ایک انسانی کھوپڑی لے آئیں تو ہمارا کام بن سکتا ہے ۔
ہم کھوپڑی کو سامنے رکھ کر اچھی طرح سے کھوپڑی کی ساخت کے نام یاد کر سکتے ہیں ۔“رضوان نے کہا۔
”ارے بھائی یہ جو ہم اپنے موبائل پرنیٹ سے کھوپڑی کی فوٹو اور معلومات نکال کر سامنے رکھے ہوئے ہیں کے اس سے بات نہیں بن سکتی ہے ۔
“
آصف نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
”مستقبل کے ڈاکٹر رضوان صاحب ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ماناکہ نیٹ پر سب کچھ ہے مگر یہ صرف موبائل کی اسکرین کی حد تک ہے ۔تم میری بات پر غور کرو تم کو سمجھ آجائے گی کہ جب ہم کھوپڑی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اِس میں موجود ہڈیوں کی ساخت پر غورکریں گے تو ہم کتنی آسانی سے اپنا ٹیسٹ یاد کر سکتے ہیں اِس ٹیسٹ میں ہم دونوں کو اچھے نمبر لینا لازمی ہیں ۔
ورنہ دو ماہ قبل جو ٹیسٹ ہوا تھا اِس میں بھی ہمارے کم نمبر آئے تھے اور ہمارے ٹیچر ڈاکٹر ایاز صاحب ہم پر سخت ناراض ہوئے تھے ۔“
آصف کی تقریر سننے کے بعد رضوان بھی اِس بات پر ما ن گیا کہ اگر کسی جگہ سے کھوپڑی مل جائے تو ان کو واقعی بہت آسانی ہو جائے گی ۔
اپنا ہونے والا ٹیسٹ کلےئر کرنے میں ‘چند منٹ بعد رضوان نے اپنا موبائل پکڑا اور اس کا انٹر نیٹ بند کرتے ہوئے بولا۔
”تو ڈاکٹر آصف صاحب یہ کھوپڑی وغیرہ بازار میں تو فروخت ہوتی نہیں تو میرے سوئٹ دوست یہ آئے گی کہاں سے ؟“آصف بولا۔
”بھائی اس بات کا تو یہ ہی حل ہے کہ شہر سے باہر جو قبر ستان ہے اس کے گور کن سے رابطہ کیا جائے ۔وہ میرا تھوڑا بہت واقف بھی ہے یہ میں کل چھٹی کے دن کرلوں گا کل شام کو ملوں گا بلکہ تم ایسا کرنا کل شام کو آجانا ہم اکٹھے ہی چلیں گے ۔
“
دوسرے دن شام کو رضوان اور آصف اپنی بائیک پر شہر سے باہر والے ایک قبر ستان میں جا پہنچے جہاں کا گورکن آصف کاواقف تھا تھوڑا بہت ‘گورکن کا مکان قبر ستان کے ساتھ ہی تھا ۔جب آصف کے دستک دینے پر اس نے دروازہ کھولا۔
تو آصف کو دیکھ کر وہ پہچان گیا اور بولا۔
”خیر تو ہے ناآصف بابو․․․․․آج کیسے آنا ہوا کہیں کوئی فوتگی․․․․․․“آصف نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں نہیں ․․․․․قمر دین صاحب ‘ہمارے ہاں کوئی فوتگی نہیں ہوئی اور سب خیر خیر یت ہے ۔
بس تم سے کچھ کام پڑگیا تھا۔کیا ہم یہاں ہی کھڑے رہیں گے ؟“
”ارے نہیں بابو جی آپ اندر آجائیں آج تو ویسے بھی میں اکیلا ہوں ۔میرے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی ہے ۔“گورکن یہ کہتا ہوا ان دونوں کو اپنی سادہ سی بیٹھک میں لے آیا۔
جیسے ہی وہ چار پائی پر بیٹھے ۔گورکن ان کے منع کرنے کے باوجود بوتل لینے گھر کے اندر چلا گیا۔
کچھ دیر بعد وہ نمودار ہوا تو اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں ڈیڑھ لیٹر کی مشروب کی بوتل ‘پلیٹ میں نمکو اور تین گلاس اُن کو نظر آئے ۔
بوتل پینے اور تھوڑا سا نمکو کھانے سے فارغ ہو کر آصف اپنے مطلب کی بات پر آگیا۔پہلے اس نے رضوان کا تعارف کروایا۔پھر اپنے میڈیکل کالج میں پڑھنے کا بتایا اور پھر اصلی بات پر آگیا۔
جب اس نے گورکن سے کہا۔
”ہم کو ایک انسانی کھوپڑی چاہیے ۔
“تو گورکن نے چونک کر ان دونوں کی طرف دیکھا ۔اسی وقت آصف نے پانچ سو روپے کا نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیا۔گورکن نے پہلے تو کھوپڑی نکال کر دینے سے معذرت کرلی ۔مگر جب آصف نے اس کو یقین دلا یا کہ وہ کھوپڑی کسی غلط مقصد کے لیے نہیں لے جارہے ۔
وہ میڈیکل کے اسٹوڈنٹ ہیں اور ان کو واقعی ہی تعلیمی سرگرمی میں استعمال کرنے کے لیے کھوپڑی درکار ہے ۔تو گورکن نے یہ کہتے ہوئے کھوپڑی نکال کر دینے پر رضا مندی ظاہر کردی ۔
”ٹھیک ہے صاحب مگر اس کی مزید کچھ قیمت بھی دینی ہو گی ۔
“آصف نے مزید پانچ سو روپے اس کو دیے تو اس نے ان کو رات دس بجے آنے کا کہا۔وہ واپس چلے آئے گھر آکے رضوان نے آصف کو کہا۔
”آصف میں تو پہلی مرتبہ اتنی رات گئے قبرستان جاؤں گا کہیں مجھے کوئی روح ہی نہ چمٹ جائے ۔“تو آصف ہنستا ہو ا بولا۔
”ابے گامڑ تو میں کیا روز رات کو قبر ستان جاتا ہوں ‘کیا میں کفن چور ہوں ؟تم گھبراؤ نہیں گورکن ہمارے ساتھ ہو گا۔“رات نو بجے کے قریب آصف نے گھر والوں سے بہانہ بنا کر دوگھنٹوں کی اجازت مانگی کہ ان کا ایک دوت بائیک سے گر کر زخمی ہو گیا ہے اور وہ اسے اسپتال دیکھنے جارہا ہے ۔
ساتھ رضوان بھی ہو گا ۔اگر چہ ابا جان نے اس کو اجازت دے دی مگر اُن کی آنکھوں میں شک کے سائے واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے ۔خیر صاحب وہ گھر سے نکلا تو ہلکے بادلوں میں بجلی رہ رہ کر چمک رہی تھی رضوان کو ساتھ لے کر وہ جب شہر سے باہر بڑے قبر ستان کی سڑک پر مڑے تو موسم ہلکی ہلکی ہوا چلنے اور بجلی چمکنے سے مزید پُر ا سرار ہو گیا۔
قبر ستان سے قریب ہی گورکن کا مکان تھاگورکن کو ساتھ لیا گورکن نے کھود نے والی کدال اور ایک ٹارچ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ۔قبر ستان کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی جب بجلی چمکی تو ایک لمحے کے لیے ان کو قبروں کی طویل قطار نظر آئی ۔
تب ان دونوں کے دل خوف سے دھڑک اٹھے اور جس میں خوف کی لہر دوڑنے لگیں ۔
رضوان نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ وہ واپس چلا جائے مگر پھر دوست کے ساتھ ہونے کا حوصلہ پا کر وہ بھی آگے بڑھتا گیا۔قبر ستان کے درخت چمکتی ہوئی بجلی میں نظر آجاتے ورنہ ان کے سائے گہرے کالے رنگ کے لگ رہے تھے جیسے بہت ساری چڑیلیں ایک ساتھ کھڑی ہوں ۔
کچھ دور چلنے کے بعد گورکن بولا۔
”صاحب یہ قبر کسی وقار صاحب کی ہے اور میں نے دیکھا ہے اس کی دیکھ بھال کو بھی بہت کم آتے ہیں اِس کے وارث ․․․․․تو میں آپ کو اس کی کھوپڑی ہی نکال دیتا ہوں ۔“یہ کہہ کر وہ اپنا بیلچہ سا جو اِس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ۔
اس سے قبر کی مٹی ہٹانے لگا ۔آصف بابو گورکن نے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
”آپ یہ ٹارچ صرف اس قبر پر رکھو ‘ادھر اُدھر نا روشنی کرنا۔“
رضوان ایک طرف کھڑا یہ خوف ناک قبر ستان دیکھ رہا تھا ڈر کے مارے اس کا پسینہ چھوٹ رہا تھا ۔
مگر وہ پانی بے عزتی کے ڈر سے واپس نہیں جارہا تھا ۔تھوڑی دیر میں گورکن نے مٹی ہٹا دی پتھر کی سل اُس نے ذرا سی کھسیکا کر ہٹائی اور پھر چند ہی منٹوں میں قبر اوپن ہو چکی تھی ۔اب تو ٹارچ پکڑے آصف کا دل بھی نا معلوم خوف سے گھبرا اٹھا۔
وہ اب ٹارچ کی روشنی تو قبر کے اندر دیکھنے کی ہمت اس کی بھی نہیں ہورہی تھی ۔اس نے وقت کاٹنے کے لیے گورکن سے سوال کر دیا۔
”قمر دین تم کو ڈر نہیں لگتا قبر ستان میں ۔“تو وہ بولا۔
”صاحب اگر ہم ڈرگئے تو پھر پیٹ کیسے بھرے گا ہمارے بچوں کا ‘ہمارے تو باپ دادا کا یہ ہی کام ہے جو کہ اب میں کررہا ہوں ۔
“کچھ دیر بعد گورکن نے جب اپنا ہاتھ قبر سے نکا لا تو اس کے ہاتھ میں خربوزے کی طرح پکڑی ہوئی کھوپڑی دیکھ کر رضوان تو رضوان آصف بھی گھبرا گیا گورکن نے اپنی جیب سے کپڑے کا کالا تھیلا نکالتے ہوئے انسانی کھوپڑی کو اس میں خربوزے کی طرح ڈال دیا ۔
پھر وہ تھیلا ایک سائیڈ پر رکھ کر قبر کو بند کرنے لگا۔کچھ وقت کی محنت کے بعدقبر بند ہو گئی تب گورکن نے مٹی پھر سے قبر پر ڈالی۔ا ور ہاتھ جھاڑ تا ہوا کہنے لگا۔
”یہ لو صاحب اپنی مطلوبہ چیز ․․․․“آصف اب اس تھیلے کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بھی گھبرارہا تھا مگر حوصلہ کرکے اس نے تھیلا جیسے ہی پکڑا تو اس کو لگا جیسے اس کی اپنی زندہ سلامت کھوپڑی جو اس کے کاندھوں کے اوپر تھی اس میں گرمی سی بھر گئی ہو ۔
گرمی لگنے کا یہ سلسلہ جلد ہی ختم بھی ہو گیا۔مگر ان دونوں کے دل اب بھی گھبراہٹ سی محسوس کررہے تھے ۔
گورکن کے مکان تک آنے پر اس نے اس کوباقی پانچ سوروپے پکڑ ا دیے ۔بائیک اسٹارٹ کرکے کھوپڑی والا تھیلا موٹر سائیکل کی ایک سائیڈ پر لٹکا یا۔
جب وہ رضوان کے گھر کے پاس آئے تو رضوان اتر گیا۔تب آصف نے کھوپڑی رضوان کو پکڑا دی ۔پہلے تو رضوان ڈرتا رہا مگر جب آصف نے اِس سے کہا۔
”تمہارے پاس لاک والی الماری ہے تم اس کو الماری میں رکھ کر لاک لگا دینا ۔میری الماری کا لاک خراب ہے تو اس کو گھر کا کوئی بھی فرد دیکھ سکتا ہے ۔
“رضوان یہ وجہ سن کر کھوپڑی اپنے پاس رکھنے پر مان گیا ۔گھر کے اندر جا کر اس نے سب سے پہلا تھیلا الماری میں رکھ کر لاک لگایا ۔کھانا وغیرہ کھا کر ابھی وہ سونے ہی جا رہا تھا کہ اچانک اُس کو زوردار چیخ کی آواز سنائی دی ۔وہ گھبرا کر اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اس کے بڑے بھائی اپنے چھوٹے بیٹے کو زمین سے اٹھاتے ہوئے نظر آئے ۔
”کیا ہوا بھائی جان ؟“گھبرا کے بولا۔اِسی وقت اِس کو اپنے بھتیجے کے سر سے خون نکلتا دکھائی دیا۔
”یہ کیا ہوا بھیا؟“وہ چلا یا جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ اس کا بھتیجاصحن سے اندر بر آمد ے میں داخل ہورہا تھا کہ اِس کے سر پر چھت سے سیمنٹ کا درمیانی ٹکڑا ٹوٹ کر آلگا ۔
جس کی وجہ سے اس کے سر پر چوٹ آئی ۔فٹا فٹ محلے کے مقامی ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے بچے کو اپنے چھوٹے سے کلینک پر لے جا کر اس کی مرہم پٹی کی ۔
”خدا کا شکر ہے کہ سر کی ہڈی ٹوٹی نہیں ۔“مقامی ڈاکٹر بولا۔بچے کو گھر واپس لایا گیا تو کافی رات ہو چکی تھی بچے کو جو دوادی گئی تھی اِس میں سکون کی دوا شامل ہونے کی وجہ سے وہ جب سونے لگا تو رضوان خدا کا شکر ادا کرتا ہوا اپنے کمر ے میں آگیا کہ بچہ بچ گیا ہے ۔
کمرے میں آکر اس کو ایک عجیب سا خیال آیا کہ آصف اور اُس نے چونکہ مردے کی کھوپڑی نکا لی تھی قبر سے تو ہو سکتا ہے گھر میں بچے کو جوچوٹ لگی ہے اِس کے سر پر تو کیا یہ کوئی عذاب یا انتقام ہے مردے کا ؟
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے موبائل پر آصف کا فون آنے لگا۔
آصف نے فون پر سب سے پہلے ننھے میاں کی خیریت معلوم کی ۔تب ہی رضوان نے اس کو اپنا یہ خیال بتایا۔
”ہو سکتا ہے کہ مردے کی روح ہم سے بدلہ لے رہی ہو ؟جب ہی تو اِس کے بھتیجے کے سر پر چوٹ لگی ہے ۔“آصف یہ سن کر بہت ہنسا۔
”ارے بابا یہ 4G اور 21ویں صدی ہے یہاں روحیں وغیرہ نہیں انتقام لیتیں ؟ویسے بھی یہ کوئی سن 1800ء کا زمانہ تو ہے نہیں جہاں تم مجھے مردے اور روحوں سے ڈرا رہے ہو ؟جناب رضوان صاحب ؟مستقبل کے ڈاکٹر صاحب اگر تمہارا یہ ہی حال رہا تو تم آگے ڈاکٹری کیسے کرو گے ؟تم تو اپنے مریض کو (اگر کسی وجہ سے وہ مرگیا)دیکھ کر اسپتال سے بھاگ جا ؤ گے ہاہاہا․․․․․“آصف رضوان کی بات پر دل کھول کر ہنسا ۔
آخر میں اس نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
”کھو پڑی نکال کر سامنے رکھ کر اس کی ساخت پر غور کرنے کا منصوبہ میرا تھا اگر مردے کو انتقام لینا ہے یا ڈرانا ہے تو مجھ کوڈرائے ۔“(آصف کو کیا معلوم کہ وہ جن باتوں کا مذاق میں کہے جا رہا تھا تقدیر بہت جلد ان کو سچ کرنے والی ہے )۔
”اوکے گڈبائے‘ڈاکٹر رضوان ․․․․کل ملیں گے میں دس بجے آپ کی طرف آؤں گا ۔“یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔رضوان نے بھی فون بند کرکے ایک طرف رکھا اور پھر وہ یہ سوچتے سوچتے ہی سو گیا کہ میں بلاوجہ ڈررہا ہوں بھلا جو زمانہ آج کل چل رہا ہے اتنے جدید زمانے میں روحوں اور مردوں کا کیا ڈر ․․․․․
رضوان کا فون ایک زور دار آواز سے بج اٹھا وہ گہری نیند سے تھوڑا سا جا گا پھر اُس نے ایک ہاتھ آگے کرکے یہ دیکھنے بنا ہی کہ اس سخت خراب موسم میں کون اِس کو کال کر رہا ہے اس نے فون آف کر دیا اور سو گیا۔
ابھی اُس کو سوئے پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ اس کے کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا۔اُس کے بڑے بھائی کی بوکھلائی ہوئی آواز نے رضوان کو جگادیا ۔اُس کے سوئے ہوئے دماغ میں رضوان کے بڑے بھائی کی آواز جب آئی تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”کیا ہوا بھیا؟“
”رضوان رضوان جلدی اٹھو․․․․‘گہری نیند سے جاگے رضوان کے دماغ میں یہ بات آئی کہ کہیں اُس کے بھتیجے کی طبیعت تو مزید خراب نہیں ؟
”بھیا کیا وسیم ٹھیک ہے ؟“اُس نے پوچھا۔
”ہاں ہاں وسیم ٹھیک ہے ۔
تم جلدی باہر آؤ آصف کی طرف جانا ہے ۔“
”آصف کی طرف ․․․․․کیوں کیا ہوا ؟اس وقت تو صبح کے پانچ بجے ہیں ۔“
”رضوان زیادہ سوال مت کرو لگتا ہے تمہارا دماغ ابھی تک سورہا ہے ۔تم کو آصف کے ابانے فون بھی کیا تھا مگر تم نے فون ہی آف کر دیا۔
تب انہوں نے ہم کو ایمر جنسی اطلاع دی ۔آصف اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔“بھیا نے ایک بم رضوان کے اوپر گرادیا۔
”آصف ․․․․․آصف کو کیا ہوا بھیا ؟“وہ جنونی انداز سے چلایا۔
”صبر کرو میرے بھائی ․․․․آصف رات کمرے میں سویا تھا کہ اچانک اُس کے کمرے سے زور دار آواز آئی تو اُس کے دونوں بھائیوں اور ابا اُس کے کمرے میں جب گئے تو انہوں نے ایک ہولناک منظر دیکھا کہ کمرے کی چھت سے پنکھا ٹوٹ کر آصف کے سرپر لگا ہوا ہے اور بے چارہ آصف سوتے میں ہی اپنی کھوپری ٹوٹ جانے سے یہ د نیا چھوڑ کر چلا گیا․․․․“رضوان نے یہ ہولناک بات سنی تو اُس کا دل بھی دولنے لگا․․․․
بے ہوش ہوتے ہوتے اُس کے دماغ میں صرف یہ بات ہی چل رہی تھی کہ جس مردے کی کھوپڑی اُن دوستوں نے نکالی تھی ۔
آخر کار اُس نے اپنا انتقام آصف سے بھی لے لیا۔اب اُس کی باری ہے آصف کی کھوپڑی تو ٹوٹ گئی اور وہ دنیا چھوڑ گیا مگر مردہ اب اُس کو نہیں چھوڑے گا ۔جب رضوان کو ہوش آیا تو اُس کے عزیز ترین دوست کا جنازہ تیار تھا اگر چہ اُس کی طبیعت بھی بہت خراب تھی مگر اُس نے ضد کرکے اپنے دوست کی ڈیڈباڈی دیکھی چہرہ تو کپڑے کے نیچے چھپا دیا گیا تھا کیونکہ کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ جانے سے چہرہ دیکھنے کے قابل نہیں تھا۔
اتفاق دیکھیں آصف کا جنازہ بھی اُس کی قبر ستان میں گیا جہاں سے 24گھنٹے پہلے کھوپڑی نکال کر لے گیا تھا اور اُس کی قبر بھی اُس ہی قطار میں تھی جس کے شروع میں آصف اور رضوان ایک پرانی قبر سے کھوپڑی نکال کر لے کر گئے تھے ۔آصف کے جنازے پر رضوان کو تو نہ لے جایا گیا کہ بے پناہ صدمے سے اُس کی طبیعت خراب تھی ۔
آصف کی المناک موت لوگوں کے لیے تو پنکھا گرنے سے ہوئی تھی مگر صدمے سے گم صم رضوان اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ پنکھا بھی مردے کے انتقام کی وجہ سے گرا تھا اور گرا بھی ٹھیک اُسی جگہ تھا
(یعنی کھوپڑی پر )
مردے کی بھی وہ کھوپڑی ہی نکال کر لائے تھے آصف کی موت کے تین چار دن بعد رضوان کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی تو اُس نے کھوپڑی والا تھیلا الماری سے نکالا۔
تب اچانک اُسے محسوس ہوا کہ کھوپڑی کی آنکھوں کی جگہ سے روشنی سی نکل رہی ہے ۔اس نے باہر آکر بائیک اسٹارٹ کی گھر والوں سے بہانہ بنا کر قبر ستان والی سڑک کی جانب آگیا ۔قبر ستان میں آکر اُس نے جب گورکن کو تلاش کیا تو معلوم ہوا وہ قبر ستان کے جنوبی کونے میں کام کررہا ہے ۔
رضوان کا یہ پروگرام تھا کہ آج وہ کھوپڑی دے جائے اورتین چار دن تک آکر آصف کی قبر پر بیٹھ کر کافی دیر قرآن پاک پڑھے گورکن جیسے ہی اُس کو ملا ۔پہلے تو اُس نے آصف کی المناک موت پر بے پناہ افسوس کا اظہار کیا ۔پھر جب رضوان نے اُس کو کھوپڑی رات کو قبر پھر سے کھول کر اُس میں رکھنے کا کہا تو وہ حیران ہوا ۔
اُس نے پوچھا۔
”یہ تو آپ کو میڈیکل کے کاموں میں چاہیے تھی اب کیوں واپس رکھنی ہے ۔“رضوان نے بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُ س کو اب کالج والوں نے اپنے پاس سے انسانی ڈھانچے کے حصے دے دیے ہیں ۔تو اب یہ اُس کو درکار نہیں ۔
“
(یہ جھوٹ بولتے ہوئے اُس کو آصف یاد آیا کہ اس منحوس کھوپڑی نے اپنا انتقام لیتے ہوئے اُس کو بھی اسی قبر ستان میں پہنچا دیا ہے جہاں سے وہ چند دن پہلے اپنے قدموں پر چل کر ہنستا مسکراتا کھوپڑی لے کر واپس گیا تھا)۔
”صاحب ․․․․“گورکن کی آواز سے وہ دنیا میں واپس آگیا۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کھوپڑی واپس رکھ رہے ہیں ۔یہ تو آصف صاحب کے بار بار کہنے اور واقفیت کی وجہ سے میں نے نکال دی تھی ورنہ ایسا کرنا بہت گناہ ہے ۔مردہ بھی بے چین ہو جاتا ہے ۔“
”ٹھیک ہے قمر دین ․․․․تم یہ کھوپڑی والا تھیلا اور یہ رکھو 500روپے ․․․․تم آج ہی رات کو قبر کھول کر اس کو اندر رکھ دینا․․․اور میرے نمبرپر اس کو مردے کے پاس رکھ کر ایک تصویر بنا کر مجھے ارسال کر دینا تا کہ مجھے اطمینان ہو جائے ۔
“
”او کے صاحب ․․․․․․! “گورکن نے تھیلا اور پانچ سو روپے پکڑے اور اُن کو اپنی بیٹھک کی الماری میں رکھنے چل پڑا ۔اِدھر رضوان قبرستان کے مین گیٹ پر کھڑی اپنی بائیک کو اسٹارٹ کرکے جب واپس مڑنے لگا تو اسے ایک قبر کا کتبہ نظر آیا۔(جس کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن بند ہونے لگی)۔
بالکل نئی نئی قبر پر لگے کتبے پر لکھا تھا ۔
”آصف اظہر والد اظہر شیخ تاریخ وفات 28جولائی)“یہ تازہ قبر کھوپڑی کے انتقام کا ثبوت تھی۔
It is fifteen years old and old, students of Asif and Rizwan were those days. In one of the classes he was studying about the human structure that the teacher came.
"There are two holidays starting from" Dairy Student ... since yesterday, in relation to the Islamic festival "after these 2 holidays, I have to cut off your entire human structure.
After coming home, Asif and Rizwan were convinced that they would be in this test because their minds and names and structures of human skull bones were not clearly evident .They were written in both the book written on the human structure. It was reading that suddenly Asif said.
"If we get a human skull from anywhere, then we can do our job.
We can remember the name of the skull well in front of the skull, "Rizwan said.
"Hey brother, this can not be a matter of what we are putting out of the skull's photos and information from our mobile internet.
"
Asif said while answering.
"The future doctor, Rizwan Sahib, is something else in the hand, that's everything on the net, but it's just on the screen of the mobile screen .You consider me to understand that when we skull If you take hold of your hands and consider the structure of bones present in it, then how easily we can remember your test, both of us should take good marks in this test.
Other than two months ago, the tests were also reduced to our numbers and our teacher Dr. Ayaz was angry with us. "
After hearing Asif's speech, Rizwan also did not agree that if a skull was found in some place, he would really be very easily.
After closing his forthcoming test, 'A few minutes later, Rizwan took his mobile and said it closing the Internet.
"So Dr Asif would not have sold this skull etc. in the market, then my suite friend would come from where?" Said Asif.
"Brother, however, is the solution to contact the gurus outside the city. He is also a little aware of me, that I will spend tomorrow tomorrow tomorrow, but you will meet tomorrow Let's go tomorrow evening we'll go together.
"
On the other day, Rizwan and Asif reached his bike in a tomb outside the city, where Gorkan Asif Kawaqif was a little more 'Gurkhin's house was with grave tomb. When he opened the door, Asif used to knock.
So, seeing Asif, he recognized and said.
"Well, what's wrong? No matter how fun it was coming today ..." said Asif while bite him.
"No, no, Qamar Din Sahib," he said. "We have no funeral and all are welcome."
Just you had some work.Will we stand here? "
"Oh no Babu! Come inside, let me be alone today anyway. My wife is going to my parents' house with children." Gordon said it to both of them and brought them to a simple sit.
As soon as he sat at four pie, the gurban went home to take the bottle despite his forbidding.
After some time he appeared, the bottle of liquid drink in a handful tray in his hand 'salt and three glasses appeared in the plate.
Asif got his point of view after drinking the bottle and graduating with a bit of salt. He first introduced Rizwan. Then he told his medical college to read and then came to the real issue.
When he told Goran.
"We need a human skull.
"So Gorkun shocked and looked at both of them. At the same time, Asif put a five hundred rupee note in his pocket. Gorgin already forgot to remove the skull .If when Asif convinced him or not, That skull is not being taken for any wrong purpose.
He is the medical student and he needs a skull to really use it in academic activity. So Goranin expressed his pleasure on removing the skull by saying it.
"Well, sir, but it will be worth more.
"Asif gave him more than five rupees, so he asked him to come for ten o'clock. He returned home told Rizwan to come home.
"I will go to the cemetery so many times in the night, I will never touch any soul." Then Asif laughed.
"Do not worry, what day do I go to graveyard in the night? Do I be shocked? You do not panic, but with us we will be near." At night ninety nine, Asif will ask for permission from the family to ask for the doubts. A fire has fallen down from the bike and she is going to see the hospital.
There will be rivals also .If Aba Jan allowed it, but the shadow of doubt could clearly be seen in his eyes .Yeah sir went out of the house, lightning remained light in light clouds. Ruhwan With him, when he was buried outside the city on a big tomb, the weather became more light by lightning lightning and lightning light.
The graveyard was nearby near the tomb, but Gurkin took the digestive hammer and a flashlight in the hand .Just entering the gate of the sky when the lightning shines, then a long queue of graves for a moment came .
Then the heart of both of them fell in fear and in which the fear of fear ran.
Rizwan thought for a moment that he would go back but he went ahead and encouraged him to be with the friend. The trees of the sky were visible in shining power, otherwise their shadow seemed black. There are lots of excavations together.
After some time, Gordan spoke.
"Sir, this graveyard belongs to a prince and I have seen her care too much her heritage ..... then I'll remove you from her skull." By saying this, she herself The belt bit was caught in the hand.
He started removing the soil from the grave. Atatürk Babu Gorkan said while directing.
"Keep this flashlight only on this tomb."
Rizwan stood on the one side watching this fierce grave, fearing his fear was scared.
But the water was not going to be afraid of insolence. In the past seven times, Goran sliced the stone of stone removed from the soil, and he removed all the cloves and then the grave was opened in a few minutes. Even afraid of unbearable fear.
He did not even have the courage to see the light of the flashlight in the tomb. He asked Goran to cut the time.
"You do not feel proud of the grave." So he said.
"Sir, if we fear, then how will the stomach be filled with our children?" This is the work of our fathers, which I am now doing.
"After some time, when Gorkan took his hand out of the tomb, seeing Rukhwan Rizwan Asif, seeing a skull like a melon in his hand, Gurkhin screwed the black bag of cloth from his pockets and shook the human skull. Put it like
Then he put a tomb on the left side and started closing the tomb. After a hard time, the work was closed, Gorkan again put the dust on the grave. He started shouting his hand.
"This is my favorite thing ..." Asif was confused by holding this bag in hand, but after stirring he stirred as he was caught, he felt as if he had a lifelong skull over his shoulders. There was heat in it.
This series of summer heat has ended too soon. But the hearts of both of them were still feeling panic.
When he reached the garden of Gurken, he grabbed him a little over five. He was hanging on a skull bike on a motorcycle by bike.
When he came to Rizwan's house, Rizwan went to sleep. The son caught Khopri Rizwan. Rachel kept fearing but when Asif said to him.
"You have a closet wardrobe, put it in a cupboard and put it in lock. If your wardrobe is bad then you can see anybody in the house.
"Rizwan heard this reason when I was holding a skull." He went inside the kitchen and put it in the first wardrobe, and set a lock. He was going to sleep just now and he was suddenly shouting loudly. The sound was heard. When he got out of his room, his elder brother looked up after taking his younger son out of the ground.
"What happened, brother?" She said. It was time to see her bleeding out of her nephew.
"What happened to this brother?" He went or soon found out that his grandmother was entering the house that he would break the middle piece of cement from the ceiling to the head.
Which caused her headache. The local doctor of the FATA-based local doctor, who took the child to her small clinic, confiscated her.
"Thank God, the head cord is not broken." The local doctor said. The baby was brought back home so it was enough for the baby to be included in the medicine due to being included in a healthy medicine. Rizwan, thanking God, came to his waist that the child was saved.
He came to the room and got an awkward idea that Asif and he had dried the skull of the dead man, and there could be a tomb in the house. Is it a punishment or a revenge on his head?
Now he was thinking that his phone started calling Asif.
Asif found the first kidney kidney on the phone .Really, Ruhwan told him that idea.
"Maybe maybe the soul of Murder is taking place with us? As soon as you have hurt her nephew's head."
"Hey Baba, this is 4G and 21st Century, here is the revenge of the souls." Anyway, this is not the age of 1800, where you are scared me from the dead and the spirits? How would you go ahead for the doctorate? You will see your patient (if he dies because of some reason), he will run away from the hospital. "Mr. laugh laughing at the talk of Rizwan.
Finally, he closed the phone saying this.
"It was my plan to consider the structure of this structure and put it in front of the lost person, if the man is to be avenge or to warn, then I will call him." (What did Asif know that the things he was saying was being joking Soon to make them come true).
"Okay Goodbye" Doctor Rizwan .... I'll see tomorrow tomorrow I'll come to you. "By saying this, he closed the phone. Mansoor also closed the phone and then thought he was thinking I'm sorry, but what's the fear of the souls and men in the modern times, which is going on for the time now.
Rizwan's phone picked up with a loud voice, he would go a little bit away from deep sleep and made a hand forward to see who was calling him in the bad weather, he turned off the phone and turned went.
He was just fifteen minutes now that the door of his room opened with a blast. The voice of his elder brother fought Rizwan .Just when Ruhwan's elder brother heard the sound of his sleeping soul Sat down
"What happened brother?"
"Rizwan Rizwan wake up soon ...." Rizwan's mind came to a deep sleep, saying, "The beauty of nephew is not even worse."
"Brother, Was Waseem OK?" He asked.
"Yeah yes wax is fine.
You come out quickly to go to Asif. "
"Why is it done to Asif? What are you doing at this time?"
"Rizwan does not ask too many questions that your brain is still a surprise .You also called the phone via Asif but you turned off the phone.
Then he told us embarrassment. The attribute is no longer in this world. "Brother beaten a bomb on Rizwan.
"Asif ..... What happened to Asif?" He ran out of a vicious manner.
"Be patient, my brother .... Asif slept in the room that suddenly his voice came loudly, when both of his brothers and his father went to his room, he saw a horrific scene from the roof of the room. The wings have been broken down by Asif and it was left behind in the unconsciousness of Bhaadhaad Swat, in his absence. "Rukhwan heard this horrible thing, even his heart felt like drowsy ....
Being unconscious, it was only in his mind that the man who had lost his skull.
After all, he took his revenge from Asif also. It is his turn, Asif's skull is broken and he left the world, but the dead will not leave it now. When Ruhwan senses consciousness, funeral of his beloved friend It was ready if her nature was very bad but she was facing the face facing her friend's Dadbaddi and was hid under the cloth because the skull bone was not able to see the face.
See the consortium's funeral in his grave, where he took out the skull 24 hours before, and his grave was in the same row, at which initially Asif and Rizwan took out the skull from an old tomb. On the funeral ceremony, Rizwan was not taken into account that his physical illness was bad.
Asif was wandering for the wretched death of people, but Sam Gum Samim Rukhwan knew well that this feather had fallen due to the revenge of Murder and it was also in the same place.
(I.e. on the skull)
He also brought the skulls out of the mud. Three days after Asif's death, Rizwan's health was very good, he pulled out of the wardrobe.
Then suddenly he felt that lightning was getting out of the spot of skull eye. He came out and walked out of the bike homes and moved towards the tomb. So it is known that the grave is working in the south corner of the sky.
It was Rizwan's program that he would give a skull today and sat for four days and sat on the tomb of Asif, as soon as we read Qur'aan read in Koran. Then he expressed sad regret over Asif's grave death. Then when Rizwan asked him to open the grave on the skull and keep it in the night, he was surprised.
He asked.
"This is why you want to keep it in medical work now," Rizwan said, adding that now college students have given part of human resources to them. So now it does not require it .
"
(When he lied, he recalled that this maneuver skull took his revenge and got him into the tomb, where he went back on his steps and went back with a cheerful smile smash).
"Sir ...." she returned to the world with Goran's voice.
"It is very good that you are keeping the skull back." It was so sad to say Asif and again because of Orih or else it is very sinful.
"Okay, I'm sorry." You shook this skull and put it 500 rupees .... You should open the tomb tonight and keep it inside. Please send me so that I can be satisfied.
"
"Oh sir! "Gordan bagged and took five hundred rupees and kept going to his bedroom." At the same time, Rizwan looked at the tomb of a tomb when he started riding his bike standing on the main gate of the cemetery. Seeing her heartbeat started closing).
The book was written on the new tomb completely.
"Asif Azhar, father of Azhar Shaikh, dated July 28)" This was the evidence of the revenge of the new skull skull.