یہ کہانی پر انی ہونے کے ساتھ ساتھ سچی بھی ہے ۔یہ بات مغلوں کے دور کی ہے ،آخر ی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ایک ہاتھی تھا ، نام تھا اُسکا ”مولا بخش “ یہ ہاتھی اپنے مالک کا بے حد وفادار تھا ۔ہاتھی خاصہ بوڑ ھا تھا مگر تھا بہت صحت مند۔
بہادر شاہ ظفر سے پہلے بھی کئی بادشاہوں کو سواری کر واچکا تھا ۔ فطر تاََشریر اور شوخ تھا ۔ہر وقت مست رہتا تھا ۔اپنے مہاوت کے سوا کسی کو پاس نہ آنے دیتا تھا۔
یہ ہاتھی کھیلنے کابڑا شیدائی تھا ۔ قلعے کے قریب بچے اُسکے گرد اکٹھے ہو جاتے تھے اور مولا بخش اُن کے ساتھ ساتھ کھیلتا رہتا ۔
پہلے بچے اُسے کہتے کہ ایک ٹانگ آتھا ؤ وہ اُٹھا لیتا ۔بچے کہتے ایک گھڑی (یعنی ایک منت) پوری ہونے سے پہلے نہ رکھنا ۔
وہ ایک گھڑی یعنی ایک منٹ تک ایسے ہی رہتا ۔پھر بچے کہتے گھڑی پوری ہوئی تو وہ ٹانگ نیچے رکھ دیتا۔پھر وہ مخصوص آواز نکالتا جس کا مطلب ہوتاکہ ”بچو ! اب تمہاری باری آئی ۔
” چنانچہ بچے اپنی ٹانگ اُٹھا لیتے ۔گھڑی پوری ہونے سے پہلے کوئی بچہ ٹانگ نیچے کرنے لگتا تو ہاتھی زور زور سے سر ہلا تا ۔یعنی ابھی گھڑی پوری نہیں ہوئی ۔غرض وہ بچوں کے ساتھ بہت خوش رہتا تھا ۔ اُنہیں اپنی سونڈ سے گنے اُٹھا اُٹھا کر دیتا ۔
جس دن بچے نہ آتے ،اُس دن شور مچا تا ۔ مجبور اََ مہاوت بچوں کوبلا کر لاتا ۔ویسے تو یہ بہت شوخ ہاتھی تھا لیکن جب بادشاہ کی سواری کا موقع آتا تو بہت موٴ دب اور سنجید ہ ہوجاتا ۔جب تک بادشاہ صحیح طرح سے بیٹھ نہ جائے کھڑا نہ ہوتا تھا ۔
1857ء میں جب انگر یز قلعہ پر قابض ہوئے اور بہادر شاہ ظفر نے ہما یوں کے مقبر ے میں پناہ لی تو مولا بخش بہت اُداس ہوگیا ۔با دشاہ سے بچھڑنے کا اُسے اِتنا غم ہواتھا کہ اُس نے کھانا پینا بھی چھوڑدیا تھا ۔قلعے کے نئے انگر یز انچارج سانڈرس کو یہ خبر ملی تو اُس نے لڈو اور کچور یوں سے بھرے ٹو کرے منگوائے اور ہاتھی کے سامنے رکھے ۔
ہاتھ نے اپنی سو نڈ سے وہ تمام ٹو کرے اُٹھا کر پھینک دئیے ۔ سا نڈرس کو غصہ آگیا کہ یہاں تو ہاتھی بھی باغی ہے ۔اُس نے ہاتھی کی نیلامی کا حکم دے دیا ۔ہاتھی کو بازار میں کھڑا کر دیا گیا مگر کوئی بھی بولی نہیں لگا رہاتھا ۔ پھر ایک پنساری نے اڑھائی سو روپے کی بولی لگائی اور ہاتھی اُسکے ہاتھ نیلام کرنے کا فیصلہ ہوا۔
مہاوت نے یہ دیکھ کر کہا‘” مولابخش ! ہم دونوں نے بادشاہ کی بہت غلامی کر لی ، اب تو تجھے ہلدی بیچنے والے کے دروازے پر جانا پڑے گا ۔
یہ سننا تھا کہ ہاتھی دھم سے زمین پر گر ااور مر گیا ۔ہاتھی کی وفاداری کا یہ قصہ بہت انوکھا ہے۔مولابخش نے مالک کے سوا کسی کے پاس رہنا پسند نہ کیا اورا س غم نے اُس کی جان لے لی ۔
This story is true as well as it is true. This is a mughal period, the last Mughal king was an elephant of Bahadur Shah Zafar, the name was "Mulha Bhub", this elephant was very loyal to his master. It was old, but was very healthy.
Even before Bahadur Shah Zafar had touched many kings. Fitr was tremendous and fond of all the time. He was always helpless.
This was a cabin fanatic to play elephant. Children near the castle gathered around him and Mula Bakhtiar continued to play with them.
The first child would tell him that he would take one leg to the thigh. He said, "Do not keep a watch before it is completed."
He would have stayed for a clock, for a minute. Then the kid says the clock would be kept down then he would put a leg in the bottom. Then he could get a specific sound that means "Beware! Now it's your turn.
"So, the kids would pick their legs." When the baby started to down the leg before the body was completed, elephant shouted loudly .Usay the clock was not fulfilled yet .He was very happy with the children. He would pick up his countenance.
On the day the children did not come, they did not shout. The compulsion of the child was brought to life. This was a very elephant, but when the opportunity for the king's ride comes, he will become very proud and serious. Until the king did not stand properly.
In 1857, when Indigyas occupied the fort and Bahadur Shah Zafar took shelter in our mausoleum, Mulaa was very depressed. It was so sad that she could stop eating from the globe. She had also stopped drinking. Internal Affairs Incharge Srrrrs received this news, so he would have torn off the ludo and kheer and kept it in front of elephant.
The hand picked them up and threw them out of their sleep. Suddenly, Nurder was angry that elephant is also a rebel here. He ordered elephant auction. He was raised in the market but no bid was kept. Then a pencil bid a trillion rupees and elephant decided to auction his hand.
Mahabhata looked at it and said, "Mulabakh! We both slaughtered the king, now you will have to go to the tender seller's door.
It was to hear that elephant fell on earth and died. This story of the loyalty of the house is very strange. Mulabakh did not like to live with anyone except his master, and his grief took his life.