ایک بادشاہ تھا۔نہایت اچھا، رحم دل اور اپنی رعایا کا بہت زیادہ خیال رکھنے والا- اس کی ایک ملکہ بھی تھی، بے حد حسین و جمیل اور خدا ترس- وہ ملک کا نظام چلانے کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق بادشاہ کو رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھی اور بادشاہ ان پر عمل بھی کرتا تھا۔
اللہ نے انھیں ایک چاند سا بیٹا بھی عطا کیا تھا۔اس کا نام شہزادہ عدنان تھا۔بادشاہ اور ملکہ دونوں اس کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ وہ ابھی صرف دس گیارہ سال کا تھا مگرتھا بہت سمجھ دار۔وہ پڑھائی لکھائی میں بہت دلچسپی لیتا تھا اور اپنے دوسرے ہم عمر بچوں کے برعکس کھلونوں سے زیادہ کتابوں میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔
بادشاہ کو اس کی اس دلچسپی کا علم تھا اس لیے وہ دور دراز کے ملکوں سے قصے کہانیوں کی کتابیں منگوا کر اس کو دیتا تھا اور شہزادہ ان کتابوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھا کرتا تھا۔
ان کتابوں کے پڑھنے سے اس کی عقل و شعور میں اضافہ بھی ہوتا تھا اور اس کو طرح طرح کی معلومات بھی حاصل ہوتی تھیں۔
شہزادہ عدنان کے اتالیق اسے مختلف مضامین پڑھاتے تھے۔وہ اس کی ذہانت اور عقلمندی سے بہت خوش تھے۔شہزادہ عدنان میں ایک بہت اچھی بات یہ بھی تھی کہ اگر اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی تو وہ سوال کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا تھا- اس کے اتالیق جب بادشاہ کو شہزادے کی علم و حکمت سے لگاوٴ کی باتیں بتاتے تو بادشاہ بہت خوش ہوتا تھا۔
پڑھنے لکھنے والے بچوں سے سب ہی خوش ہوتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ ایک روز سہ پہر کو جب شہزادے کے اتالیق اسے پڑھا کر رخصت ہو گئے تو وہ باغ میں آ کر بیٹھ گیا۔باغ میں پودوں پر رنگ برنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے، درختوں پر حسین و جمیل پرندے بیٹھے چہچہا رہے تھے اور ان کی آوازیں کانوں کو بڑی بھلی معلوم دے رہی تھیں۔
شہزادہ باغ میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔اتفاق سے دربار کا وقت بھی ختم ہو گیا تھا اور بادشاہ وہاں سے اٹھ کر سیدھا باغ میں آ نکلا۔اس نے دیکھا کہ شہزادہ عدنان وہاں موجود ہے اور کسی سوچ میں گم ہے۔اس نے پوچھا "بیٹا- کیا بات ہے آپ چپ چپ سے کیوں بیٹھے ہیں؟"۔
اس کی آواز سن کر شہزادہ عدنان چونک گیا اور پھر دوڑ کر بادشاہ سے لپٹ گیا۔بادشاہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس کا منہ چوما اور بولا- "اتالیق پڑھا کر چلے گئے- آج انہوں نے کیا پڑھایا تھا؟"۔ شہزادے نے جواب دیا- "جی ابّا حضور- آج انہوں نے ہمیں امیر لوگوں اور غریب لوگوں کی زندگی کے بارے میں بتایا تھا- غریب لوگوں کی مشکل زندگی کے بارے میں سن کر ہمارا دل اداس ہو گیا ہے۔
یہ کہہ کر شہزادہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا، پھر بولا- "ابّا حضور میں خوش ہوں کہ میں ایک بادشاہ کے گھر پیدا ہوگیا،مجھے ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہے۔میں جو خواہش بھی کرتا ہوں پوری ہوجاتی ہے"- اس کی باتیں سن کر بادشاہ کو بڑا اطمینان ہوا کہ شہزادہ اپنی اس زندگی سے خوش ہے- اس نے کہا- "بیٹا- ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے- آوٴ اب چلتے ہیں، محل میں آپ کی امی انتظار کر رہی ہونگی"- شہزادہ بادشاہ کے ساتھ چل پڑا مگر وہ بدستور کسی سوچ میں گم تھا- چلتے چلتے اس نے بادشاہ سے کہا- "ابّا حضور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ دوسرے بچوں کی طرح میں کسی غریب آدمی کے گھر میں کیوں پیدا نہیں ہوا؟"- اس عجیب سے سوال پر بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی اور اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس کا کیا جواب دے اس لیے وہ خاموش ہی رہا-اسے خاموش دیکھ کر شہزادے نے پھر کہا- "ابّا حضور استاد محترم نے بھی میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اور بات بدل دی تھی- آپ بہت اچھے ہیں. میری تعلیم و تربیت کے لیے نہایت قابل اور ذہین اتالیق مقرر کیے ہیں جو مجھے محل میں آ کر مختلف علوم کے بارے میں پڑھاتے ہیں- میں کیسی بھی خواہش کروں، پوری کی جاتی ہے-میں کہیں باہر جاوٴں تو میری حفاظت کے لیے بہت سے سپاہی میرے ساتھ ہوتے ہیں- میں سوچتا ہوں دوسرے بچوں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا- مجھ میں کیا خاص بات ہے جو ان تمام بچوں میں نہیں؟"- بادشاہ لاجواب سا ہو گیا تھا- شہزادے کی باتوں نے اسے فکر مند بھی کر دیا تھا- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کی باتوں کا کیا جواب دے اور اسے کیسے مطمئن کرے- بادشاہ کے ساتھ جو محافظ چل رہے تھے وہ شہزادے کی باتیں سن کر زیر لب مسکرا رہے تھے اور دل ہی دل میں بادشاہ کی بے بسی سے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے- بادشاہ خاموش اور سوچ میں ڈوبا محل پہنچا- ملکہ نے محسوس کر لیا کہ وہ کچھ فکر مند ہے اس لیے وہ بھی پریشان ہوگئی- اس نے پہلے تو شہزادے کو تاکید کی کہ وہ اپنا لباس تبدیل کر لے پھر اس کے جانے کے بعد وہ بادشاہ کے پاس آیا اور اس سے فکر مندی کی وجہ پوچھی- بادشاہ نے شہزادے کی کہی ہوئی تمام باتیں ملکہ کے سامنے دوہرا دیں- ان باتوں کو سن کر ملکہ ذرا بھی پریشان نہ ہوئی اور بولی- "اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارا شہزادہ اتنی کم عمری میں بھی سوچ بچار کرتا ہے- غریبوں کے حالات جان کر اس کا اداس ہوجانا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اپنے دل میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے ورنہ اس کی عمر کے بچے تو کھیل کود میں ہی لگے رہتے ہیں، ان باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے- آپ فکر نہ کریں، میں شہزادے سے اس بارے میں بات کروں گی اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کروں گی کہ اس کے ذہن میں اس طرح کے سوالات کیوں اٹھ رہے ہیں "- بادشاہ کو ملکہ کی اس بات سے اطمینان ہو گیا- شام کو ملکہ نے شہزادے کو اپنے کمرے میں طلب کیا اور اس کے ساتھ کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ گئی- اس طرح طلب کیے جانے پر شہزادہ عدنان سمجھ گیا تھا کہ بادشاہ نے اس کی باتوں کا تذکرہ ملکہ سے ضرور کیا ہوگا اس لیے وہ اپنی ماں کو دیکھ کر شرارت سے مسکرایا اور بولا- "امی حضور جو پوچھنا ہے پوچھئے میں آپ کو ضرور بتاوٴں گا"- اس کی بات پر ملکہ کو ہنسی آگئی ،وہ بولی "شہزادے آپ بہت شریر ہو گئے ہیں- آپ کی سمجھ میں ساری باتیں آنے لگی ہیں"- شہزادہ فوراً بولا- "سوائے ایک بات کے"- ملکہ نے کہا وہ بات آپ کے ابّا حضور مجھے بتا چکے ہیں- آپ تو مجھے صرف اس بات سے آگاہ کردیں کہ ان سوچوں سے آپ کا مقصد کیا ہے؟"-ملکہ کی بات سن کر شہزادہ عدنان سنجیدہ ہو گیا اور بولا- "امی حضور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ابّا حضور وزیروں کو، امیروں کو اور اپنے درباریوں کو بغیر کسی وجہ کے بیش بہا انعامات سے نوازتے رہتے ہیں- انھیں یہ انعامات ان کی خوشامد بھری تعریفوں کے صلے میں ملتے ہیں"- شہزادے کی بات سن کر ملکہ ہکا بکا رہ گئی، اس نے گھبرا کر شہزادے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سرزنش بھرے لہجے میں بولی- "شہزادے- خاموش رہیے- اپنی عمر کا خیال کیجیے اور بڑوں کے بارے میں اس طرح کے گستاخانہ خیالات کا اظہار نہ کیجیے"- ملکہ کی بات سن کر شہزادہ ذرا بھی پریشان نہیں ہوا، بولا- "امی حضور، آپ میری امی ہیں، میں آپ سے اپنے دل کی ہر بات کر سکتا ہوں"- ملکہ خاموش تو ہو گئی مگر وہ تشویش بھری نظروں سے شہزادے کو دیکھے جا رہی تھی- شہزادے نے جب دیکھا کہ ملکہ بہت سنجیدہ اور فکر مند ہوگئی ہے تو اس نے کہا- " امی حضور آپ ناراض ہو گئی ہیں، مجھے معاف کر دیجیے"- ملکہ نے پیار سے شہزادے کو خود سے لپٹا لیا اور بولی- "شہزادے، میری جان- میں غلطی پر تھی، آپ نے بہت اچھا کیا جو یہ باتیں مجھ سے کہہ دیں- تمام بچوں کو اپنے دل کی بات اپنی ماں سے کر دینا چاہیے- دنیا میں ماں سے بہتر دوست کوئی اور نہیں ہوتا- یہ ماں ہی تو ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو صحیح مشورے دے سکتی ہے- اچھا اب آپ مجھے آسان الفاظ میں بتائیے کہ مسئلہ کیا ہے- آپ کے ذہن میں ایسے خیالات کیوں کر آ رہے ہیں؟"- شہزادہ کچھ دیر تک تو سوچتا رہا پھر دھیرے سے بولا- امی حضور، جب میں محل کی برجی پر چڑھ کر شہر کا نظارہ کرتا ہوں تو مجھے روزانہ بہت سے بچے دور بازاروں میں نظر آتے ہیں- وہ بچے محنت مزدوری میں مصروف ہوتے ہیں، کوئی انھیں جھڑکتا ہے، کوئی بے عزتی کرتا ہے، کوئی دھکے دیتا ہے مگر اس کے باوجود وہ بچے محنت مزدوری کے کاموں میں لگے رہتے ہیں اور شام کو چند سکے لے کر گھر چلے جاتے ہیں- یہ سب کچھ دیکھ کر میں اداس ہو جاتا ہوں- میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ میں اگر محل میں پیدا نہ ہوتا تو میں بھی ان ہی کی طرح کا ایک بچہ ہوتا- مجھے بھی محنت مزدوری کر کے اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹانا پڑتا"- یہ کہہ کر شہزادہ عدنان نے پیار سے ملکہ کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور پھر بولا- "امی حضور میں چاہتا ہوں کہ ان بچوں میں سے کوئی بچہ بھی مزدوری نہ کرے، یہ سب تعلیم حاصل کریں، کھیلیں کودیں جیسا کہ میں کرتا ہوں- تعلیم حاصل کر کے جب وہ بڑے ہوجائیں تب ہی محنت مزدوری اور دوسرے کاموں کا سوچیں- یہ تمام باتیں ابّا حضور کے سوچنے کی ہیں کیوں کہ یہ سب لوگ ان کی رعایا ہیں- ذرا ذرا سی بات پر خوش ہو کر لوگوں پر انعام و اکرام کی بارش کرنے سے بہتر ہے کہ یہ ہی دولت رعایا کی بہتری کے لیے خرچ ہو- جگہ جگہ مکتب ہوں اور ملک کا ہر بچہ ان میں پڑھے اور ان کی تعلیم کا سارا خرچہ سرکاری خزانے سے ادا ہو- شہزادے کی باتیں سن کر ملکہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اتنے میں دروازے کا پردہ ہٹا اور بادشاہ سلامت نے کمرے میں قدم رکھا- اس نے ملکہ اور شہزادے کی تمام باتیں سن لی تھیں- اسے دیکھ کر شہزادہ ادب سے کھڑا ہوگیا- بادشاہ نے قریب آ کر شہزادے کو گلے سے لگا لیا اور کہا- "بیٹا آج تم نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں- ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ ہم نے بچوں کی تعلیم اور ان سے مزدوری کروانے جیسے اہم مسلے کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دیا تھا اور نہ ہی ہمارے کسی نا لائق وزیر نے کبھی ہماری توجہ اس طرف دلوائی تھی- یہ ہماری بہت بڑی غلطی تھی، ہم چاہتے تو اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتے تھے"- اس کے بعد بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گیا- مسلسل کئی دنوں کی سوچ بچار اور صلاح و مشوروں کے بعد اس نے ملک بھر میں جگہ جگہ مکتب بنوائے، ان میں پڑھے لکھے بہترین اتالیق مقرر کیے- اس کے بعد ملک بھر میں منادی کروا دی گئی کہ آج کے بعد کوئی بھی بچہ مزدوری نہیں کرے گا، لڑکی ہو یا لڑکا، تعلیم حاصل کرنا سب پر لازم ہوگا- جو والدین اپنے بچوں کو مکتبوں میں داخل نہیں کروائیں گے، انھیں بادشاہ کے سپاہی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیں گے- جو والدین اپنے بچوں کو ان سرکاری مکتبوں میں پڑھنے کے لیے بھیجیں گے، انہیں فی بچہ ایک اشرفی ماہانہ وظیفہ ملے گا- سارے ہی ماں باپ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد زیور تعلیم سے آراستہ ہوں- اس اعلان نے سارے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی تھی لوگ جوق در جوق اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان مکتبوں میں بھیجنے لگے- وہ لوگ جھولی پھیلا پھیلا کر اپنے بادشاہ کو دعائیں دیتے تھے کیوں کہ اب ان کے بچے بازاروں میں مزدوری نہیں کرنے جاتے تھے، وہ اب تعلیم حاصل کرنے لگے تھے- ایک روز ملکہ شہزادے کے ساتھ محل کی برجی پر چڑھی شہر کا نظارہ کر رہی تھی کہ اس کی نظر شہزادہ عدنان پر پڑی جو بہت خوش نظر آرہا تھا- اس نے ملکہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو بولا- "امی حضور، دیکھیے شہر کے بازاروں میں اب ایک بھی بچہ مزدوری کرتا نظر نہیں آ رہا"- اس کی بات سن کر ملکہ بھی مسکرانے لگی- تھوڑے ہی دنوں بعد اس تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے- سچ ہے تعلیم ہی انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتی ہے- بادشاہ کے ملک میں بھی ایسا ہی ہوا- جب سب بچے تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوئے تو انہوں نے جو پیشہ بھی اپنایا، اس میں اپنی تعلیم کی وجہ سے خوب کامیابی حاصل کی- آس پاس کی حکومتوں کے لوگ اس بادشاہ کے ملک کی ترقی اور اچھی حالت دیکھ کر اس کی مثالیں دیا کرتے تھے، انھیں کیا پتہ تھا کہ اس تبدیلی کے پیچھے نیک دل شہزادہ عدنان کا ہاتھ تھا۔
It was a king. He was a good man, good-hearted and very caring for his friend. He was also a queen, very sensible and gentleman and God-he conferred the king according to his understanding to run the system of the country. There was also advice on welfare and the king used to follow them.
Allah gave them a son as a son. His name was Prince Adnan. Both the kings and the Queen were seen to see him. She was just ten eleven years old but she was very skeptical. She used to be very interested in reading and she was more interested in books than toys other than her other children.
The king had the knowledge of his interest, so he summoned the stories of story stories from remote countries and gave it to him, and Prince used to read these books in great interest.
The reading of these books also increased his mind and he had similar information.
Prince Adnan's reader used to read various subjects. He was very happy with his intellect and wisdom. There was a very good thing in Shahid Adnan that if he did not understand anything, he felt free to ask He did not do it - the King was very happy when his King was telling the King about the wisdom of the prince.
All those who read reading children are happy and love them. On one day, when the prince's enthusiast was recited to study it, he sat in the garden and sat in the garden. The flowers on the plants were showing flowers on their trees, the birds and the birds were laughing at the birds and their birds The sounds were very good to hear ears.
The Prince was thinking something sitting in the garden. The time for interfaith was over, and the king rose up from there and came to the right garden. He saw that Prince Adnan is there and lost in any thought. He asked "Son- Why are you sitting quietly?"
After listening to his voice, Prince Adnan was shouted and then he was rushed to the king. The king shouted his hands on his head, kissed his face and kissed him and said, "Doctrine read and read - what did they teach today? ". The prince replied, "Yes, the Holy Prophet - He told us about the life of rich people and poor people today- by listening to the difficult life of poor people, our heart has become sad.
After saying this, Prince was silent for a while, and then said, "I'm happy in the presence of the Holy Prophet, I am born in the house of a king, I have every kind of luxury. I do whatever I wish." - The king was very satisfied to hear his words, that Prince is pleased with his life- he said - "Son, should be thankful to Allaah for these blessings. Now let's go, let your mother be waiting in the palace." "- Prince was walking with the king, but he was always lost in some thought- while walking, he said to the king-" I am also thinking that in the presence of other children, I am in a poor man's house. Why was not it born? "- The king surprised a question on this strange question and he did not understand what he would answer, so he was silent - seeing him silent, the prince again said-" Aba The teacher also did not respond to my question and changed it. You are very good. I have set a very intelligent and intelligent enthusiasm for my teaching and training that I can come to the palace and study about different sciences. There are many people who are willing to do so - I go out somewhere, so many soldiers are with me for protection - I think why I do not do it with other children. What is the matter that I am not in all these children? "- The king was awesome - the things of the princess had worried him - he did not understand what he had Answer and how to satisfy it - the guards who were running with the king were smiling and lying in the heart and heartlessly enjoying the king's heart - King was silent and kept thinking Arrives to the palace - Queen realized that she was worried, so she worried too - she first emphasized the prince to change her clothes, and after she went to the king And asked him the reason for anxiety - Let the king tell all the things that the princess says to the Queen - hearing these things, the Queen did not worry at all, and said, "Allah is thankful that our prince is so less I also think of savings - knowing the poor conditions, it is a sign of the fact that he has sympathy for them in his heart, because his age is still playing in the game. Do not pay attention to things - you do not worry, I will talk to the prince about this and try to find out why such questions arise have been
The King congratulated the Queen- Queen in the evening called the princess in her room, and sat down with her window- in such a way Prince Adnan realized that the king had spoken to him What would happen to Queen Queen, so she looked at her mother and smiled with shame and said, "I am going to tell you what I am asking for." - She laughed, saying, "The princess There are many things in your mind - all the things are happening in your understanding. "- Prince immediately said -" Except one thing "- the queen said she told me about your father-in-law. Tell us what is your purpose of thinking? "- By listening to the queen, Prince Adnan became serious and said -" I know very well in the presence of the father, the faithful, the rich, the rich and the nobles. " She is praising some of the reasons for her rewards - she receives these rewards instead of her fabulous praises. "- The Queen was stuck after listening to the princess, she scared her to put her hands on the prince's mouth Seeing this, the chief minister said, "The prince is silent - think of your age and do not express such anxious thoughts about the elders." - Malik "I am my mother, I can talk to you about all my heart" - Queen was silent but she looked at the princess with an overwhelmed view of hearing. When the princes saw that the Queen was very serious and worried, she said, "The presence of Ami is angry with you, forgive me" - the Queen wrapped the prince herself and said, "Dear, my life- I was at fault, you did great things to tell me - All children should talk to their mother with their mother- there is nobody else better friend than mother in the world. Mummy It is possible that you can give me the right advice to your children. Well, now you can easily tell me what is the problem - why are you thinking like this? "- Prince kept thinking for a while. - Ami's presence, when I ascend to the palace and look at the city, many days I see children in remote areas- they are engaged in labor hard work, somebody turns them down, nobody ignores them, Somebody pushes but still, they keep the kids working hard work and go home by taking some coin in the evening - seeing it all becomes sad. I think that if I had not been born at the palace, then I would have had a child like that - I had to work hard and to have my father's hand cut off. "- By saying that Prince Adnan loved the Queen in the throat of Queen Put it down and then say, "I am in the presence of the Holy Prophet, that none of these children should be labored, get them all education, jump to play as I do - when they get older, they only work hard. Think about labor and other tasks - all these things are to think of the Holy One because they are all subjects of their presence - in the matter of all things happening, raining on people It is better to spend money from the government treasures - every one of the country's children read in them and in the eyes of the princess- Tears came in - so he removed the doorway and King Saheeh stepped into the room - he heard all the queen of the queen and the princess - seeing him, prince stood up with literature - the king came close and embraced the princess. And said - "Son, today you have opened our eyes - we have realized that we did not look forward to the main issue like children's education and welfare. Neither nor any of our useless ministers ever had our attention on this side - it was a major mistake, we could do so much in the matter. "- Then King sat down with his ministers Given continuous many years of thought and advice and consultation, he became a place to place a place in the country, set out the best reader in them- and then the whole country was announced that no child after today Will not labor, girl or boy, getting education will be required for everyone - parents who do not enter their children in school, arrest them by the king's soldiers I will send you children in school for these official schools, they will receive one-year-old monthly scholarship - all parents want their children to be adorned with education - this announcement There was a wave of joy in all the countries, people started to send their children to the schools to educate them - they spread a wide spread and used to claim their king because they are no longer labor in markets. They used to get education now - one day with a princess princess watching the city overlooking the palace that her eyes It was a great pleasure to see that she had seen the Queen and said,
Ami's presence, see, no one is able to do any work in the markets of the city. "- The Queen also started to smile by listening to it. After a few days, there were signs of this change - the truth is that education is real to man. I make a human being - The same happened in the king's country- when all children entered into practical life after graduation, the profession they adopted, achieved success in their education - around People of the government used to give examples of this king's country's progress and good condition, what they knew was that Prince Prince of Eden was a good heart behind this change.