دوپہر کا وقت تھا گرمی انتہا پر تھی‘خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان دمشق میں اپنے محل میں بیٹھے ہوئے تھے۔محل کے دریچے سے سامنے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔دُور دُور تک کھلا میدان تھا اچانک خلیفہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو افتان و خیزان ننگے پاؤں قیامت کی اس گرمی میں محل کی طرف بڑھ رہا تھا۔
خلیفہ نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا”جس شخص کو اس گرمی میں بھی اس طرح سفر کرنے کی مجبوری ہے اس سے زیادہ بد نصیب اور کون ہو سکتاہے۔“حاضرین میں سے ایک شخص نے عر ض کی”امیر المومنین ممکن ہے کوئی حاجت اسے آپ کے پاس کھینچ لائی ہو۔
“
خلیفہ نے کہا”واللہ ا گر یہ شخص میرے پاس کوئی حاجت لے کر آیا ہے تو میں اس کی حاجت پوری کرونگا۔
“پھر ایک خادم کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ دروازے پر کھڑا رہے اور اگر یہ شخص مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے میرے پاس آنے سے نہ روکا جائے۔
چند لمحوں بعد وہ شخص خلیفہ کے سامنے حاضر تھا۔خلیفہ نے اس سے پوچھا۔
”کونسی حاجت تمہیں یہاں لائی؟“
”جناب میں شکایت لے کر آیا ہوں مجھ پر ظلم ہوا ہے ‘میں انصاف کا طلب گار ہوں۔“
”اعرابی ! کس نے تم پر ظلم ڈھایا ہے ؟“خلیفہ نے پھر پوچھا ۔
اس شخص نے جواب دیا”مروان بن حکم نے ‘جسے آپ نے ہمارا والی بنا کر بھیجا ہے اور یہ شخص ہمارے لئے وبال جان بن گیا ۔میرے لئے اور میری بیوی کے لئے تو اس شخص نے ظلم کی انتہا کردی ہے ۔خدا را اپنے اس والی کیخلاف میرے حق میں انصاف فرمائیے۔
“
خلیفہ نے کہا”اعرابی مجھے اپنا پورا قصہ سناؤ۔“
اعرابی بولا!”جناب میری ایک بیوی تھی میں اس کا عاشق زارتھا ۔ہمارے پاس اونٹوں کا ایک قافلہ تھا جس سے ہم با آسانی گزر بسر کر لیتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ ہمارے علاقے میں قحط پڑ گیا ۔
میری حالت ابتر ہوگئی اور میرے پاس مال ودولت میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا ۔میری بیوی سعاد‘کے باپ کو جب میری اس حالت کی خبر ہوئی تو وہ زبردستی میری بیوی کو میرے گھر سے لے گیا۔میں نے مروان بن حکم کے پاس شکایت کی ‘مروان نے میری بیوی کے باپ کو بلا بھیجا۔
اس نے مروان کے سامنے غلط بیانی سے کام لیا اور کہا کہ میری بیٹی سعاد اس مفلوک الحال شخص کے پاس رہنے کیلئے رضا مند نہیں ہے ۔میں نے مروان سے سعاد کو بلا کر اس کی رضا پوچھنے کی درخواست کی چنانچہ مروان نے سعاد کو طلب کیا مگر جب سعاد حاضر ہوئی اور مروان کی نظر اس پر پڑی تو وہ مروان کو پسند آگئی اور بجائے انصاف کے وہ اُلٹا میرا دشمن بن بیٹھا۔
اس نے مجھے بلا قصور بُرا بھلاکہنا شروع کر دیا اور مجھے جیل میں ڈالنے کا حکم جاری کر دیا۔پھر سعاد کے باپ سے طے کر لیا کہ وہ ایک ہزار دینا رحق مہر کے بدلے مجھ سے طلاق کے بعد سعاد کا نکاح مروان سے کر دے گا۔مجھ سے طلاق دلوانے کا ذمہ مروان نے خود لیا۔
مروان نے مجھے طلب کیا اور سعاد کو طلاق دینے کا حکم دیا۔میں نے انکار کیا تو اُس نے مجھ پر تشدد کا حکم دیدیا۔جب تشدد حد سے بڑھا تو میں مجبور ہو گیا اور میرے پاس سوائے طلاق دینے کے کوئی چارہ نہ رہا چنانچہ میں نے طلاق دیدی اور عدت گزرنے کے بعد مروان نے سعاد سے شادی رچالی۔
“
یہاں تک کہنے کے بعد اعرابی رونے لگا۔پھر بے حال ہو کر لڑکھڑایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
غصہ خلیفہ کے چہرے پر ٹپکنے لگا اور کہنے لگا ”مروان نے اللہ کی حدود میں دست اندازی کی ہے اور ایک مسلمان کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے ۔
“
پھر قلم اور کاغذ منگوایا اور مروان بن حکم کے نام لکھا:
”مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسلام کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کیا ہے اور اپنی رعیت کے ایک شخص پر ظلم ڈھایا ہے ۔اب تمہارے جیسے شخص کو حرص و ہوس سے باز رکھنا لازمی ہو گیا ہے ۔
“پھرد وشعر لکھے جن کا مطلب یہ تھا”میرے پاس ایک سنگین معاملے کی شکایت کی گئی ہے جس کا تمہیں علم نہیں میں تمہارے جیسے گنہگار کے کام سے اللہ سے استغفار کرتا ہوں تم فوراً سعاد کو طلاق دے کر نصر بن ذبیان کے ہمراہ ہمارے پاس روانہ کردو۔
“
مروان کو جب یہ حکم ملاتو تعمیل حکم کے بغیر اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہا چنانچہ اس نے فوراً سعاد کو طلاق دیدی اور نصر بن ذبیان کے ہمراہ اسے دمشق روانہ کر دیا ۔ساتھ ہی شعروں کی زبانی ایک خط ارسال کیا جس میں لکھا تھا۔
”اے امیرالمومنین میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے۔میں اپنے اس فعل پر شرمندہ ہوں اور معذرت خواہ ہوں مگر آپ جب اسے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انسان کی تمام آرزوئیں ایک جسم میں مجسم ہیں ۔آپ کے پاس سورج کی مانند ایک حسین صورت آرہی ہے ایسی صورت کسی انسان نے کبھی دیکھی ہوگی نہ کسی جن نے۔
“
خلیفہ نے خط پڑھاتو مسکرائے اور حکم دیا کہ سعاد کو حاضر کیا جائے۔
سعاد دربار میں حاضر ہوئی۔جب خلیفہ کی نظر اس پر پڑی تو واقعی خلیفہ نے محسوس کیا کہ وہ حُسن و جمال میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔پھر جب خلیفہ نے اس سے بات کی تو مزید حیران ہوئے۔
فصاحت‘بلاغت اور ذہانت میں بھی اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔پھر انہوں نے میاں بیوی کے باہمی خلوص کو پر کھنا چاہا‘اور اعرابی کو مخاطب کرکے کہا”تجھے اس کے بغیر کیوں سکون نہیں آتا میں اس کے عوض تجھے چاند جیسی حسین وجمیل تین کنیزیں عطا کروں گا اور ہر کنیز کے ساتھ ایک ایک ہزار دینار کا عطیہ بھی ملے گا اور پھر تجھے بیت المال سے اتنا کچھ عطا کروں گا کہ تیرے لئے کافی ہو جائے گا۔
“
اعرابی نے جب یہ سناتو چیخا”مروان بن حکم کے ظلم کے خلاف میں نے آپ سے انصاف مانگا تھا․․․․اب میں آپ کے ظلم کے خلاف انصاف کس سے مانگوں؟“
خلیفہ مسکرائے اور بولے”تجھے اقرار ہے کہ تُو نے سعاد کو طلاق دیدی تھی۔
مروان بھی اسے طلاق دینے کا اقراری ہے اب ہم سعاد کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ جسے چاہے اپنے لئے اختیار کرلے۔“
پھر سعاد کی طرف دیکھ کر اسے کہنے لگے۔
”سعاد!اب تم بولو تم کسے اختیار کر نا چاہتی ہو اور تمہیں کون زیادہ پسند ہے ۔
تین شخصوں کے درمیان تمہیں فیصلہ کرنا ہے ۔ان میں سے ایک ہے امیر المومنین اپنے محل وحشم وحذم کے ساتھ‘دوسرا ہے مروان بن حکم اپنے ظلم وہوش کے ساتھ اور تیسرا ہے اعرابی اپنے افلاس اور بدحالی کے ساتھ۔“
سعاد نے شعروں کی زبان میں فوراً جواب دیا۔
”اگر چہ یہ شخص مفلس اور بدحال ہے مگر میرے نزدیک اپنی ساری قوم اور سارے عزیزوں سے زیادہ باعزت ہے ۔اور یہ مجھے عزیز تر ہے۔“پھر کہنے لگی:”اے امیرالمومنین!زمانے کے حوادثات اور وقت کی تبدیلی سے میں شکست خوردہ نہیں ہوں گی۔
میرا اور اس اعرابی کا ساتھ بڑا پرانا ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس محبت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔جب میں نے خوشحالی کے زمانے میں اس کی رفاقت سے لطف اٹھایا ہے تو اب پریشان حالی میں بھی میراسب سے زیادہ حقدار ہے ۔“
خلیفہ نے جب سعاد کی یہ وفا اور خلوص دیکھا تو مسرت سے جھوم اُٹھے اور بولے”سعاد میں نے صرف تمہارے خلوص اور وفا کا امتحان لینے کے لئے یہ باتیں کہیں تھیں ۔
تم امتحان میں پوری اُتری ہو۔واقعی ایک مسلمان بیوی کا اخلاق ایسا ہی ہونا چاہئے۔“پھر سعاد اور اس کے اعرابی خاوند کو دودو ہزار دینار عطا کئے جانے کا حکم صادرفرمایا۔
There was no time for heat. The Mu'awiyah bin Abi Saffain was sitting in his palace in Damascus. The front of the window was clearing the front of the window. The open field was far from the distance, the caliph looked at a person's sight. The frogs were moving towards the palace in this heat of the day of judgment.
The Caliph addressed the audience and said, "The person who is obliged to travel in this kind of heat in such a way can be more corrupt than anyone else." One of the attendants said, "The rich man is possible, You dragged
"
The caliph said, "If this man falls in harmony with me, then I will fulfill it.
"Then asked a servant and ordered him to stand at the door and if this person wants to meet me, then he should not be stopped from coming to me.
A few moments later, that person was present before the Caliph. Khalifa asked him.
"What brings you here?"
"I have come up with a complaint I am wrong," I am seeking justice. "
"Honorable! Who has wronged you? "Khalifa asked again.
The person answered, "Marwan bin Hudayd, which you sent us as ours, and this man became aware of us. For me and for my wife, this man has done a lot of injustice. Provide me justice against this person.
"
The caliph said, "I am delightful to hear my whole story."
"I was a wife of Mr. Mary. I had a lover. We had a carpet camel, which we used to pass through easily. It happened that there was a famine in our area.
My condition was overturned and there was nothing left of me to possess wealth. My father Saad's father, when I was aware of this condition, he forced my wife to take my wife. The complainant called 'my father's father.'
She acted unjustly before Marwan and said that my daughter Saeed is not willing to live with this person currently. I requested Saeed to ask Saad to ask her request, but Marwan asked Saad. But when Saad appeared and the vision of Marwan was on him, he liked Marwan and instead, instead of justice, he became an enemy.
He started calling me badly and ordered me to be put to jail. Then decided to Sa'ad's father to give a thousand rupees for a thousand rupees, after marriage to me, after marriage, Will I take the divorce myself to take a divorce?
Marwan asked me and ordered Sa'ad to divorce. I refused, so he ordered me to torture. When the violence increased, I was compelled and there was no way to divorce me except that. I divorce and after passing the court, Marwan married Saeed.
"
After saying this, we started crying atrocities. Fearlessly then fell and fell unconsciously.
The anger angered on the face of the Caliph and said, "Marwan has manifested in the limits of God and puts a hand on the honor of a Muslim.
"
Then wrote the name of the pen and paper Mongolia and the Marwan bin order:
"I have been informed that you have exceeded the boundaries set by Islam and have been wronged by a person of your tradition. It is necessary for a person like you to keep away from grief and grief.
"I wrote to you again," I have been complaining about a serious matter which you do not know, I beg to God with the act of sinner like you, you divorce Sa'ad directly with Nasr ibn Zuban. Pass off
"
When Marwan got this order, he did not have any choice without compliance order, so he divorced Saad immediately and sent him to Damascus with Nasr ibn Zuban. Similarly, the letter of the lyric sent a letter written in .
"Do not hurry about me. I am sorry about this act and I am sorry, but when you see it, you will know that all the arts of human beings are sculptured in a body. You have to be like the sun. It is a matter of fact that such a person must have seen no one else.
"
The caliph sent letters to the Masjidah and ordered Saeed to be present.
When Saeed was present in Saar Durbar, when the caliph saw it, the caliph realized that he would have no second in his beauty. Then when the Caliph talked to him, he was more surprised.
He said, "There is no answer in the health and intellect." Then he wanted to eat mutually married wife, and addressed the supernatural and said, "Why can not you feel without me, instead of you, as a moon like you Vajail will give three kinsmen, and each donor will receive a donation of one thousand dinars and then will give you something so much that it will be enough for you.
"
When the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, "I asked for justice against the cruelty of Marwan bin Hudayah .... Who will I ask for justice against your oppression?"
The caliph smiled and said, "You agree that you divorced Saeed."
Marwan also has the right to divorce her, now we allow Saeed to decide for whom he wants. "
Then looking at Saad, he started asking him.
"Saad, now you do not want to say what you call and who you like.
You have to decide between three people. It is one of them, with Amir al-Muminin, with his palace, 'O Muhammad (may Allaah be pleased with him)
Saad responded directly to the language of lyric.
"If this person is intriguing and bad, but near me all my people are more respectful than all the people and all my dear ones." And he loved me. "Then he said:" O Amir al-Munmunin! I am defeated by the changes in time and time change. Will not be
It is a big old age with me and this supernatural that can not be forgotten nor this love can be erased .Just, when I have enjoyed his affection in the time of prosperity, now more deserving of me in distressing hali Is ."
When the Caliph saw this loyal and sincerely Saeed, he started shouting and said, "Saad had said these things only for your sincere and sincere examination.
You are in the examination. It should be the same as a Muslim wife's attitude. "Then the ruler of Saeed and his supreme husband gave orders to give two thousand dinars.