صاحب کھولنے لے لو“۔ بچوں کے لئے پیزا لے کر جیسے ہی عمر پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھا کھولنے بیچنے والا بارہ سے تیرہ سال کی عمر کا لڑکا تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ مگر میرے بچے تو بڑے ہیں وہ ایسے کھلونوں سے نہیں کھیلتے۔
عمر نے معذرت خواہانہ لہجے میں اس لڑکے کو انکار کیا۔ اچھا․․․․ ٹھیک ہے ، آپ نہیں لیں گے تو کوئی اور صاحب اپنے بچوں کے لئے لے جائیں گے۔“ اس کی آنکھوں کی چمک یکدم ماند ہوئی مگر ساتھ ہی خود کو تسلی بھی دی۔ تم پڑھتے نہیں؟“ یکدم عمر کو اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔
صاحب میں پڑھوں گا تو میرے گھر میں چھوٹا بھائی اور بہن جو ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کون پوری کرے گا؟“ وہ افسر دگی سے گویا ہوا۔ میں اور اماں کام کرتے ہیں۔
اماں گھروں میں کام کرتی ہیں ۔ میں دن میں ورکشاپ پر کام کرتا ہوں اور رات کو ادھر کھولنے بیچتا ہوں۔
میرا چھوٹا بھائی اور بہن سکول جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری طرح نہ ہوں پڑھ لکھ کر بہت آگے جائیں ، اسی لیے میں اور اماں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ابا کو پچھلے سال فالج کا اٹیک ہوا تھا تب سے وہ بستر پر ہیں۔“”اچھا یہ رکھ لو“ عمر نے بٹوے سے کچھ روپے نکال کر اسے دینا چاہے۔
بھکاری نہیں ہوں محنت کرتا ہوں۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ اماں کہتی ہیں جو سوال کرتا ہے۔ قیامت کے روز اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاؤں اور قیامت کے دن میرے چہرے پر گوشت نہ ہو“ عمر کی بات سے جیسے اس کی خوداری کو تازیانہ لگا تھا۔
ارے یا تم تو برا مان گئے۔ اچھا یہ بتاؤ ایک کھلونا کتنے کا ہے؟۔سو روپے کا ۔ مگر ابھی تو آپ لینے سے انکار کررہے تھے۔ عمر کو اس کا یہ انداز اچھا لگا۔ یا تمہارے کھلونے بک جائیں اور تمہیں کیا چاہیے؟ یہ سارے دس ہیں صاحب“۔ یہ لو ان سب کے پیسے ۔
ایک کھلوانا مجھ دو میرے گھر کام والی آتی ہے اس کے بیٹے کو دوں گا۔ باقی تم اپنے گھر کے آس پاس کے بچوں میں بانٹ دینا۔ عمر نے اسے اپنا اردہ بتایا۔ وہ لڑکا چلا گیا مگر عمر کو گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیا۔ سوچ کے دریچے کھلتے گئے اُس کے ابو ایک فیکٹری میں ملازم تھے۔
عمر اس وقت آٹھویں جماعت میں تھا جب اس کے ابو کی دونوں ٹانگیں ایک حادثے میں ضائع ہوگئیں۔ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے ابو نے کبھی اس بات کو کمزوری بنا کرکسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ۔ گھر کے دروازے پر بچوں کے کھانے پینے کا سامان رکھ کر بیچنا شروع کردیا۔
امی لوگوں کے کپڑے سینے لگیں۔عمر سکول جانے سے پہلے سائیکل پرلوگوں کے گھروں میں اخبار دیتا ۔ سکول سے واپس آتا تو ٹیوشن پڑھنے والے بچے آجاتے۔ شام کو اپنی پڑھائی کرتا۔ یوں تینوں نے مل کر زندگی کی گاڑی چلانا شروع کردی۔ عمر نے ایم بے اے کرلیا تو اس کو ایک فرم میں نوکری مل گئی۔
امی نے اپنی بھانجی سے اس کی شادی کردی۔ آج اس کے دو بیٹے ہیں۔ جنہیں وہ محنت کرنے کی تلقین کرتا ہے اس کے امی ابو دونوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کا صبر ، لگن اور خودداری آج بھی عمر کے ہم قدم ہے جبھی آج اس لڑکے کو دیکھ کر اسے اچھالگا کہ آج بھی ایسے خوددار لوگ موجود ہیں۔ موبائل پر کال آرہی تھی جو اسے ماضی سے حال میں لے آئی۔ جی میرے بچو! بس آیا ہوں کچھ دیر میں ۔ عمر نے مسکراتے ہوئے بچوں کو کہا اور گاڑی پارکنگ سے نکال لی۔
Open your mouth. " The boy who took the pizza for children increased the age of twelve to thirteen years old as soon as he moved to a steep vehicle in the age parking. But my kids are older they do not play with such toys.
Omar refused to deny that boy. Good .... Well, if you do not take it, someone else will take it for their children. "The eyes of his eyes were considered to be merely acceptable, but also comforted himself. You do not read? "An old age felt interested in it.
If I read in my house, who will be my younger brother and sister in my house, who will fulfill their small needs? "The officer was told by Durgi. I work more.
We work in homes. I work on the workshop in the day and sell openly in the night.
My younger brother and sister go to school. I want them to be not like me, write and write too much, so that's why I work hard. She was on the bed since Abba last year last year. "Keep it good" Omar wants to get some money out of the wallet and give it to him.
I do not work hard. No one spreads hands to anyone. I say yes that question. On the day of Judgment there will be no meat on his face. what do you want? I spread my hands in front of the people, and on the day of Judgment I do not have meat on my face. "From the age of his life, like his self was fresh.
Hey or you're so bad. Well, tell me how much is a toy? But now you were refusing to take it. Omar liked this style. Or your toys go hungry and what do you want? These are ten. " Take this money to all of them.
Give me an opening Give me my son, I'll give her son. You must share the rest of your children in your home. Omar told him his intentions. He went to the boy but remembered his past as he sat in the car. When the rivers of thought were opened, Abu's employee was in a factory.
Omar was at the eighth party when his Abu's two legs were lost in an accident. Despite being exhausted, his Abu never sprinkled it and spread his hand in front of him. At the door of the house, children started eating and drinking food.
Ami's people are chesting clothes. Before going to school, the newspaper gives a newspaper to the people of the bicycle. When the school comes back, the children who read the tuition will come. I'll read it in the evening. So all three together started driving a life. When Omar got sick, he got a job in a firm.
Ami married her grandfather. Today she has two sons. Those who interact to work hardly, both of them have departed from this world, but their patience, selfishness and self-sacrifice are also our steps in the age of today. When seeing this boy today, he will assume that such present people are present Are there It was called on mobile that brought it to the past recently. My baby! Just come in a while. Omar smiled and asked the children to drive out the car.