آخری قیمت



آج میں ابو بکررضی اللہ عنہ سے وہ کھیل کھیلوں گا جو کسی کے ساتھ نہ کھیلا ہوگا۔ امیہ بن خلف نے ایک وحشیانہ قہقہہ کی گرج کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے کہا۔
وہی امیہ جس کے غلام حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ تھے جس نے شروع میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دعویٰ ایمان کو ریت کا محل اور بچوں کا کھیل سمجھ رکھا تھا، جس نے ایک غلام کے نغمہ توحید کو کچلنے کے لیے بدترین ظلم و ستم کیے۔


اسے جانتے ہو، امیہ بن خلف کی دونوں آنکھوں میں وحشت و عیاری کی چمک کوندنے لگی۔
تم جانتے ہو بلال رضی اللہ عنہ میرا غلام ہے اور غلام کی حیثیت ہوتی ہی کیا ہے پھر جب وہ احد، احد کی رٹ لگانا شروع کردے تو میرے لیے تو سیاہ گوشت کا نفرت انگیز ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔

میں نے کہا تھا میری پہلی ہی جھڑکی میں اس کے نئے دین کا بھوت اتر جائے گا مگر نہیں اترا پھر میں نے کون سا ظلم اس پر نہیں کیا۔
آتشیں رت پر تنور میں ڈال کر اس کے دین کا بھوت بھسم کردینا چاہا، پھر اس کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر دیکھا مگر وہ اپنے مذہب سے ہٹ نہ سکا۔


اف محمد کا یہ جادو، اسے اتارنا میرے بس کی بات نہیں۔
مگر تم تو ابو بکررضی اللہ عنہ سے کھیل کھیلنے کی بات کررہے ہو، لوگوں نے چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
ہاں، امیہ بن خلف غرایا، ہاں یہ کھیل ہے جو تم دیکھ لو گے، کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کو اس سیاہ فام سے محبت ہورہی ہے، امیہ بن خلف کا ایک اور وحشت ناک قہقہ بلند ہوا۔

وہ کہتا ہے کہ یہ وحشی غلام میرا بھائی ہے، وہ میرے ظلم و ستم سے آزاد کرانے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار ہے۔
تو اس میں کھیل کی کیا بات ہے، لوگوں نے پھر چھیڑا۔
کھیل، امیہ بن خلف غصے سے بولا۔
سیاہ فام کا مول تول کیا کوئی کھیل نہیں، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ بے کار چیز کی کتنی بڑی قیمت چکانے کی ہمت رکھتے ہیں، میں اس غلام کی قیمت اتنی بتاﺅں گا کہ بہ بھاگ جانے پر مجبور ہوجائیں گے یا پھر اس بے کار چیز کے بدلے مجھے وہ چمکتی دمکتی چیز ہاتھ آئے گی۔

سونا، سونا۔
کیا عجیب کھیل ہے جس میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی ہار یقینی اور میری جیت.... ہاہاہاہاہاہا۔ لوگ کھکھلا کر ہنس پڑے۔
اچھا تو یہ بات ہے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی سخت جانی کے بعد اب حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی ہمدردی کو آزماﺅگے۔

ہاہاہا.... ہاہاہاہا....، امیہ بن خلف کا قہقہہ کسی بدروح کی بے ہنگم چیخ و پکار کے انداز میں گرجتا رہا۔ گرم گرم ریت پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھونا جارہا تھا۔ پتھروں کے اوپر گھسیٹا جارہا تھا، کوڑے پڑرہے تھے۔
احد.... احد، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی کراہ تھی۔
ابو بکررضی اللہ عنہ نے یہ آواز سنی تو تیزی سے جھپٹے، جیسے بلال رضی اللہ عنہ کی مظلومیت کی تمام ٹیسیں.... تمام درد حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے قلب میں اتر آیا ہو، وہ سچ مچ تڑپ اٹھے۔
اس غریب کے سلسلے میں تجھے خدا کا ڈر نہیں۔
ابو بکررضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی حالت زار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس تمام دکھ کی ذمہ داری تم لوگوں پر ہے۔ امیہ نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ سے کہا۔ تم نے ہی اس کو بگاڑا اور پھر اس حالت زار تک پہنچنے پر مجبور کیا ہے۔
بتاﺅ اسے خریدتے ہو، بولو۔
ہاں، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا۔ ہاں ہر قیمت پر تیار ہوں۔
کیا قیمت دو گے، امیہ نے عجیب نظروں سے دیکھا۔
قسطاس، ابو بکررضی اللہ عنہ نے چھوٹتے ہی اپنے غلام کا نام پیش کیا۔ میرے مضبوط و قوی غلام قسطاس کے بدلے جس کے کفر سے میں بیزار ہوں اور تم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ایمان سے بیزار ہو۔
مجھے بلال رضی اللہ عنہ سے محبت ہے تمہیں قسطاس سے محبت ہونی چاہیے۔
ایک غلام سے محبت کرنے کی بات سنتے ہی امیہ بن خلف نے منہ بنایا، کچھ سوچا اور فوراً بولا۔
منظور ہے، لیکن فوراً ہی قہقہہ مارا۔
نہیں۔
وہ ہنستے ہوئے بولا، اس کی آنکھوں میں شیطانیت کوند رہی تھی۔

قسطاس ہی نہیں اس کی بیوی بھی دینا ہوگی۔
مجھے منظور ہے، حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے فوراً کہا۔
اس نے قہقہہ مارتے ہوئے ساری گفتگو پر پانی پھیرتے ہوئے کہا۔
قسطاس اور اس کی بیوی کے ساتھ اس کی بیٹی بھی لوں گا۔

اوہ.... بیٹی۔
ہاں.... اس کی بیٹی۔
حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر کہا۔ چلو دی۔
لیکن اس بار بھی امیہ بن خلف کا ہولناک قہقہہ بلند ہوا۔
میں خدا کی قسم، قسطاس، اس کی بیوی، اس کی بیٹی کے ساتھ دو سو دینار بھی لوں گا۔
بولو.... بولو بلال رضی اللہ عنہ خریدتے ہو۔
شرم کر شرم۔ بار بار زبان بدلنے کی شرارت سے بیزار آکر حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ کیا جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی۔
لات و عزیٰ کی قسم، امیہ نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
آخری قیمت پھر بات طے شدہ سمجھو۔
چل او کافر مجھے یہ بھی منظور ہے۔ مسلمان بھائی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی غمخواری سے سرشار حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنا سینہ تان کر کہا۔
سودا ختم ایک عظیم آزمائش میں دونوں مومن کھرے اترے تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی جان اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے مال پر سے طوفانی آزمائش پوری طرح سے گزری اور دونوں فاتحانہ نکلے، فقط اس لیے کہ اللہ دونوں کو ان کے مال و جان سے پیارا تھا۔





Today I will play the game with Abu Bakrullah Allah who has not played with anyone. Amia bin Khalif told his companions with a horrible tragedy.
The same was Amia whose slave Hazrat Bilal Habibhi was the one who initially believed the claim of Hazrat Bilal Rizhaa believed to be the palace of the sand and the children of children, who was the worst oppressor to crush Tawheed's song of a slave. Persecuted


Know this, the eyes of Awami and Umrah were shattered in both eyes of Amia bin Khalif.
You know that Bilal is my slave and what is the status of a slave, then when he starts setting off Ahad, then the black meat remains disgusting for me.

I said in my first glimpse that his new religion will be ruined but not come back, what wrong I did not do.
The fire was poured out on the blood of the blood and poured out ghost of his religion, then he placed a heavy stone on his chest, but he could not get rid of his religion.


This magic of Afs Mohammad, it's not my bus.
But you are talking about playing with Abu Bakr, Allah, people asked for a laugh.
Yes, Amia bin Khalif has gone astray, yes, this game is what you will see, is not it interesting that Abu Bakrrullah Allah loves this black, another horrific rise in Amia bin Khalif was raised.

He says that this brutal slave is my brother, he is ready to pay every price to free me from my oppression.
So what's the game about, people teased again.
The game, Amia bin Khalif, was angry.
Do not want to see if you want to see what is happening to you. Then, instead of this weird thing, I'll be able to touch that glimpse.

Gold, gold
What a strange game in which the necklace of Abu Bakr Allah Allah's necklace is sure and my victory ... ha ha ha ha ha ha ha ha ha ha People laugh and laugh.
Well, after the difficulty of Hazrat Bilal (RA) Allah will try to test the sympathy of Abu Bakr, Allah.

Hahaah .... Haahaha ...., the wealth of Amia bin Khalif remained strangers in an illusion of anxiety of any evil. Hazrat Bilal Rasheed was being wasted on a hot hot sand. The rocks were dragged up, they were wandering.
Ahad .... Ahad, the son of Hazrat Bilal (RA).
Abu Bakrara Allah heard this voice, so shouted rapidly, like all the tissues of oppression of Bilal Rasheed .... all the pain came down in the heart of Abu Bakrar al-An'haah, the truth was overturned.
You are not afraid of God regarding this poor.
Abu Bakhtiar (Allah) said, pointing to the condition of Bilal (RA).
You are on the responsibility of all this sadness. Ummah said to Abu Bakrrrrr Allaah. You ruined it and then forced this situation to reach.
Tell me buy it, say it.
Yes, Abu Bakr, Allah said. Yes, I'm ready at all costs.
What will be the price, Amia looked freely.
Abu Bakr, Allah's Apostle, gave the name of his slave as soon as he left. My strong and strong slave, instead of Kursas, who is weak from disbelief, and you are beyond the faith of Hazrat Bilal.
I love Bilal Rehman, you should love Caesaras.
After hearing about the love of a slave, Amia bin Khalif made Mouth, thought something and immediately said.
Approved, but hit just immediately.
no.
She laughed, she was eating devilism in her eyes.

Not just Caesaras, his wife too.
I have passed, Abu Bakrrullah Allah said immediately.
He stressed at the whole conversation while crying out, saying,
Her daughter will also be with Caesar and her wife.

Oh, daughter.
Yes .... her daughter.
Abu Bakrarrah Allah Anhu thought a moment and then said. Come on.
But this time also the horrible tragedy of Amia bin Khalif was raised.
I will also take two hundred dinars with God, Kindergarten, his wife and his daughter.
Tell me ... Boli Bilal buys you.
Shy shy. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, "O Allah! Do not lie while lying?
Type of anatomy, Amia said serious.
The last price is again fixed.
Walk and infidel me too. Abu Bakr (may Allaah be pleased with him) said to him, "O Messenger of Allah!"
In the great trial, the two believer had fallen in a great trial, the bounty of Hazrat Abu Bakr, the son of Hazrat Abu Bakr, and Allah, took full of tremendous triumph, and both went out victorious, because Allah gave them their wealth Was lovely to know