ٹھگوں کی نانی



ایک بڑھیا تھی۔ وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔ گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں گنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔ بے چاری بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔

دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیا لیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے،
وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی…. یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔ایک ٹھگ نے آگے بڑھ کر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟بیٹا! شہر جا رہی ہوں بڑھیا نے جواب دیا۔
پھر تو خوب ساتھ ہوا۔ بڑی اماں ہم بھی تو شہر ہی جارہے ہیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ہاں بیٹا! اچھا ہوگیا۔ بڑھیا نے کہا۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ٹھگ بولا۔بڑی اماں کوئی کہانی ہی سناﺅ جس سے سفر کی تھکان معلوم نہ ہو اور وقت بھی جلد کٹ جائے۔

بیٹا! میں بھلا کون سی کہانی سناﺅں؟ تم ہی کچھ کہو۔ہم سنائیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ مگر بڑی اماں ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم نے ہماری کہانی کو جھوٹ کہا تو ہم تمہارے کنگن اتار لیں گے۔ بڑھیا نے ان کی یہ شرط مان لی اور ایک ٹھگ کہانی سنانے لگا۔
بڑی اماں! ہماری ایک گائے تھی۔ بڑی خوب صورت موٹی موٹی آنکھیں تھیں اس کی۔ لمبے لمبے کان تھے۔ دودھ اتنا دیتی تھی کہ ہم دوہتے دوہتے تھک جاتے تھے لیکن دودھ پھر بھی ختم نہ ہوتا تھا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اگر ہم اس کے داہنے سینگ پر بیٹھ جاتے تو مغرب میں پہنچ جاتے اور جب بائیں پر بیٹھتے تو مشرق میں آجاتے۔
پاکستان بننے پر جب ہم قافلے کے ساتھ پاکستان آرہے تھے تو ہم پر فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ہماری گائے کو لگی جس سے بے چاری وہیں ڈھیر ہو گئی۔بڑا افسوس ہوا۔ بڑھیا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔بڑی اماں! اب تم کچھ سناﺅ۔
ٹھگ نے تیر نشانے پر نہ لگتے دیکھ کر کہا۔میں سناﺅں؟
بڑھیا نے کہا۔ اگر تم نے میری بات کو غلط جانا تو تمہیں ایک سو روپیہ دینا پڑے گا۔ٹھگو نے کہا۔ ہمیں منظور ہے۔تو پھر سنو بیٹوں! جب میری شادی ہوئی تو میرے والد نے ایک بیل بھی مجھے جہیز میں دیا۔
بڑا اچھا بیل تھا۔ کسی کو کچھ نہ کہتا تھا، ایک دفعہ یوں ہی باہر کھیت میں کوئی دوسرا بیل اس سے لڑ پڑا۔ ایسا لڑا کہ ہمارے بیل کے ماتھے پر اچھا خاصا زخم ہو گیا ہم نے بہیترے علاج کرائے لیکن زخم نہ بھر سکا…. کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بنولے کا دانہ اس کے زخم میں کہیں سے گر گیا۔

ہوتے ہوتے وہ اچھا خاصا پودا بن گیا۔ اس میں ایسی نفیس کپاس لگی کہ تمہیں کیا بتاﺅں، وہ کپاس ہم نے جمع کرنی شروع کر دی۔ اتنی کپاس جمع ہو گئی کہ اب گھر میں جگہ نہ رہی، گھر گھر ہمارے بیل کے چرچے ہونے لگے، بڑی بڑی دور سے لوگ اس انوکھے بیل کو دیکھنے کے لیے آتے۔
اس کی کپاس کو دیکھتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ اب ہمارے پاس اتنی زیادہ کپاس ہو گئی کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ہم نے اسے بیلوا کر کاٹنا شروع کیا اور اس کا کپڑا لتا بنانے لگے،
کئی قسم کے کپڑے بنوائے، جن میں کھیس بھی تھے، ان کھیسوں میں سے دو کھیس کہیں چوری ہو گئے۔
بیٹا! خدا جھوٹ نہ بلوائے، یہ کھیس جو تم اوڑھے ہوئے ہو، وہی ہیں جو چوری ہوئے تھے۔ مہربانی کر کے یہ کھیس اتار دو۔ دونوں ٹھگوں نے اپنے کھیس بڑھیا کو دے دیے اور کرتے بھی کیا۔ شرط جو تھی۔ مجبور تھے۔ ہاں تو بیٹا! بڑھیا نے پھر کہانی کا سلسلہ شروع کیا۔
ہم نے اس کپاس میں سے ململ کے تھان بنوائے۔ ململ کےتھانوں میں سے ایک تھان گم ہو گیا۔ یہ جو تمہاری پگڑیاں ہیں، اسی تھان کی ہیں،
یہ بھی اتاردو۔انہوں نے پگڑیاں بھی اتار دیں۔ نہ اتارتے تو شرط کے مطابق سو روپیہ دیتے۔اب شہر نزدیک ہی تھا۔
ایک ٹھگ بولا۔ بڑی اماں! بھوک لگ رہی ہے۔اچھا بیٹا! شہر آیا ہی سمجھو۔ مجھے اپنے کنگن بیچنے ہیں۔ کنگن بیچ لیں اور پھر آرام سے کسی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔وہ خاموش ہو گئے اور سوچنے لگے کہ بڑھیا کنگن بیچ لے پھر کوئی داﺅ چلائیں گے۔
وہ بڑھیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی دماغی سڑکوں پر تدبیروں کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اب وہ شہر میں پہنچ گئے تھے۔
ہر طرف خوب چہل پہل تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ بڑھیا نے اپنے کنگن اتار لیے اور ان سے کہنے لگی: بیٹا! سنار کی دکان آ گئی ہے۔
تم یہاں بیٹھو میں اپنے کنگن بیچ لوں۔ وہ سنار کی دکان کے قریب ہی بیٹھ گئے اور بڑھیا سنار کی دکان پر پہنچ گئی۔ کیا چاہیے اماں تمہیں؟ سنار نے پوچھا۔ میں اپنے دو نوکر بیچنا چاہتی ہوں وہ سامنے بیٹھے ہیں۔ نوکروں کی تو ہمیں بہت ضرورت ہے۔
سنار نے کہا۔ بولو اماں! کیا قیمت ہے ان دونوں کی؟ تین سو روپے۔ بڑھیا نے کہا اور بات دو سو روپے پر طے ہو گئی۔
میں نوکروں سے پوچھ لوں کہ ان میں سے ایک بکنا چاہتا ہے یا دونوں؟ بڑھیا نے کہا اور پھر بلند آواز سے پوچھنے لگی۔
بیٹا! ایک بیچوں یا دونوں؟ ادھر سے جواب ملا۔ اماں! 7دونوں بیچ دے۔ ایک کو کہاں رکھے گی؟ بڑھیا نے دو سو روپوں میں دونوں ٹھگوں کو سنار کے ہاتھ بیچ دیا اور ان کے پاس آ کر کہنے لگی۔ بیٹا! تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔
کچھ مٹھائی بھی لیتی آنا اماں! دونوں نے کہا اور بڑھیا اچھی بات کہہ کر نو دو گیارہ ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد سنار نے انہیں بلایا اور دریاں جھاڑنے کا حکم دیا تو ان کو حقیقت معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا۔ ارے وہ تو ہماری بھی نانی نکلی۔




Was a big one She grew up wearing her all his jewelery and said to her. What was the jewelery These were bitter in ears. There were gangs in arms and necklace necklace. But these were all jewelery gold. Two sticks took place after growing up. Both were big tricks, masculines and aerobics.

Both of them were deep friends. They wanted to have all the jewelery stuffed out. But the wolf did not even whiteen his hair in the sun,
He was a thief. It was his grandfather too. A thug went ahead and asked Alike Silk where the hell was going on? I am going to the city, I replied.
Then you went well. We are also going to the city too big. The other thief said.Hey son! It's good Said bold
After a little walk, a bug said. Listen to a story that does not get tired of travel and cut off the time too soon.

Son! Which story do I hear? You say something.Well us. The other thief said. But there is a big bet. That is that if you tell our story a lie then we will remove your knees. The bull accepted his condition and began to hear a story.
Big ass We had a cow. Its pretty thick eyes were thick eyes. Tall ear was long. The milk used to be so tired that we were tired, but the milk still did not end. The special thing was that if we sat on the right horn, we would reach the west and when we sat on the left, we would come in the middle.
When Pakistan became convoy when we became Pakistan, the criminals attacked us. A sensual tablet came and our cow took place, which led to anxiety. It was sad. Waiting to be sad, said, okay! Now you hear something.
The thugs looked at the arrow and said, "Do I hear?"
Said bold If you go wrong to me then you will have to give a hundred rupees. We accept it. When my marriage was done, my father gave me a bull in the dungeon.
It was a good bull. Someone did not say anything to anyone, once again another bull fought in the field outside. We got a fight that got a lot of wounds on the bottom of our bull, but we could not take a wound, but could not get hurt. It was God's saying that the bullock's bull fell from somewhere in his wound.

As a result, she became a very good plant. It took such a fine cotton to tell you, the cotton we started to collect. So much cotton was gathered that there was no place in the house, house houses started to be our bulls, from large times people would come to see this unique bull.
Seeing his cotton and tapping the mapping. Now we got so cotton that it's difficult to handle. We started cutting it and started cutting clothes,
Wear a variety of clothes, which were also covered, two of these fields were stolen somewhere.
Son! God does not lie, it is the consumption that you are lying, those who were stolen. Please take it out. Both the sticks gave up their fields and did it. Was of bet Were forced Yes, son! Born again started a series of stories.
We have made the cotton mill. One of the foundations of the Malta family was lost. This is what your fingers are,
Take it away too. They also take off the frogs. If you do not take it, you pay 100 rupees as per condition. The city was near.
Said a thief. Big ass It's hungry.Happy son! Understand the city. I want to sell my kungon Beware of bracelets and then sit in a safe place and eat it. They are silent and start thinking that if you buy a bracelet, then you will run some dowry.
They walked with rush and started racing horses on their mental roads. Now they arrived in the city.
Everywhere was a beautiful initiative. I was afraid to eat. The ladder took off his knees and said to them: Son! The cabin shop has arrived.
You sit here, I will sell my kungs. He sat near the cabin shop and reached a goldsmith shop. What do you want Suman asked. I want to sell two of my servants sitting in front of them. We need a lot of servants.
Sankar said. Say yes! What is the value of both of them? Three hundred rupees. She said and talked about Rs. 2 rupees.
I ask the servants that one of them wants to book or both? She said, and then started asking loudly.
Son! A batch or both? Answer: Oh! Sell ​​both of them. Where will one keep it? In the two hundred rupees, the two stugs sold both of them to the golden pot and came to them and said to them. Son! You sit here I'll bring you food.
Come on bring some sweets too! Both said and said good news, it got nine eleven. After a while, Sunar called them and ordered to lay the dots, he found the truth and he said. Hey she also got our granny.