شک کا زہر



 ایک واقعہ کا ذکر عظیم دانشور اشفاق احمد نے اپنے پروگرام”زاویہ“میں کیا۔وہ کہتے ہیں کہ میرے ایک دوست سعید اللہ جو نفسیات کے پروفیسر تھے اور لندن پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے۔جب وہ پی ایچ ڈی کررہے تھے اور وہاں انہیں تین چار سال ہو گئے تھے ۔
(اس زمانے کی پی ایچ ڈی ذرا مشکل کام تھا)تو ان کی بیوی کے ساتھ عجیب وغریب حادثہ گزرا۔وہ جب تہہ خانے میں نہانے کے لیے جاتی اور پانی گرم کرنے والا الیکٹرک راڈ پانی میں ڈال کر نہانے لگتی تو عین اس وقت ان کے ٹیلی فون کی گھنٹی بج اُٹھتی تھی اور وہ دوبارہ سے کپڑے پہن سیڑھیاں چڑھ کے ٹیلی فون کا ریسوراٹھا کر جب ہیلو کہتی تھی تو انہیں کوئی جواب نہیں ملتا تھا اور ان کے ساتھ یہ واقعہ تقریباً ہر روز پیش آتا ۔

اس پر پروفیسر نے وہاں کی پولیس کو اس بات کی اطلاع کردی اور پولیس نے تفتیش اور تحقیق شروع کی ۔
جب ان کے دوست پروفیسر صاحب کی اہلیہ نہا نے کے لیے نیچے گئیں اور انہوں نے نہانا شروع کیا تو گھنٹی بجی۔پولیس والوں نے فون اٹھایا لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
پولیس اس حوالے سے تحقیق جاری رکھنے کا کہہ کر چلی گئی۔اب پروفیسر نے اپنے تئیں بھی کچھ تفتیش کی تو اُن کو لگا کہ ان کے سامنے جو مکار اور موٹا آدمی جس کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی ،رہتا ہے ۔
یہی فون کرتا ہو گا اور وہ تھا بھی کچھ بد تمیز قسم کا۔
چنانچہ پولیس نے بھی اس کے نمبر پر پہرہ بٹھادیا۔حالانکہ
وہ شخص فون نہیں کرتا تھا۔پولیس نے ایکسچینج سے بھی پتہ کیا لیکن وہاں سے پروفیسر صاحب کے نمبروں پر کوئی فون کال آنے کی تصدیق نہ ہوئی ۔لندن کا یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ ذرائع ابلاغ کی خبروں کی زینت بن گیا۔
ہر چھوٹے بڑے اخبار ،صبح،دوپہر کے اخبارات میں اس بات کا ذکر ضرور آتا تھا۔ایک عرصہ تک وہ ملزم گرفتار نہیں ہو سکا اور اس عجیب”چور “کا پتہ نہیں چل سکا جس نے پروفیسر اور ان کی اہلیہ کا چین چرالیا تھا۔چنانچہ سب تھک ہار کے بیٹھ گئے۔

پروفیسر صاحب کی بیوی نے کہا ،اب اس ملک میں نہیں رہنا اور انہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے کیونکہ یہاں کے لوگ بد تمیز اور بدمعاش ہیں اور ان کا انداز زیست شریفوں والا نہیں ہے۔پروفیسر صاحب نے کہا کہ میرا تھوڑا سا کام رہ گیا ہے ،وہ ختم کرلیں تو چلتے ہیں۔
ان کی بیوی نے کہاکہ دفع کرو۔کیا پی ایچ ڈی کے بغیر زندگی بسر نہیں ہوتی؟جب پروفیسر صاحب پراہلیہ کا دباؤ بہت زیادہ بڑھا تو انہیں پی ایچ ڈی بالکل غرق ہوتی نظر آئی۔تب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے خلوص دل سے اس سلسلے میں مددمانگی اور رہنمائی چاہی۔
اسی رات جب وہ اس بارے میں غور کررہے تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں اس کی دوبارہ پوری تحقیق کرتا ہوں ۔پروفیسر صاحب بتاتے ہیں کہ وہ کسی زمانے میں ریڈیو ٹرانسسٹر بنایا کرتے تھے
۔
ان ٹرانسسٹرز کو کرسٹل سیٹ کہا جاتا تھا۔
جس میں ایک لمبے سے اپریل کو نیچے گملے وغیرہ میں ارتھ دے کر گھمایا جاتا تھا اور کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی اسٹیشن پکڑاہی جاتا تھا۔یہ سن سینتیس اڑتیس کی بات ہے ۔انہوں نے اپنے الیکٹرونکس کا علم جتنا بھی تھا،اسے بھی استعمال کیا۔
چنانچہ انہوں نے اس فون بجنے کی آواز پر کان رکھے اور جو نہی نیچے ان کی بیوی نہانے کے لیے گئیں،انہوں نے آواز دے کر کہا،”بیگم راڈلگایا۔“
جب آواز آئی ”ہاں“۔تو پروفیسر صاحب نے کہا ،دیکھو ابھی گھنٹی بجی!“اور عین اس وقت گھنٹی بج اُٹھی ۔

اس پرپروفیسر صاحب نے تحقیق شروع کردی اور چھ دن کے اندر اندر انہوں نے چور پکڑ لیا۔جو ساری لندن پولیس اور ساری کانسٹیبلری سے پکڑا نہ جا سکا تھا۔وہ چور پروفیسر صاحب نے پکڑ لیا۔
چور یہ تھا کہ جب وہ بجلی کا راڈآن ہوتا تھا اور پانی اُبالنے کے لئے اس میں ڈالا جاتا تھا تو عین اس وقت ہی گھنٹی بجتی تھی ۔
غور کرنے پر پتہ چلا کہ جس بجلی کی تار سے راڈ منسلک تھا اس تارکے قریب سے فون کی تار نیچے زمین میں سے گزرتی تھی۔جونہی وہ بجلی کی تار (Energise)ہوتی،وہ فون کی تار کو بھی (Heatup) کر دیتی تھی اور اس وجہ سے فون کی تار کرنٹ محسوس کرکے گھنٹی بجانی شروع کر دیتی تھی اور اس میں کوئی آدمی ملوث نہ تھا۔

پرفیسر صاحب کہتے ہیں کہ جس کرب کی حالت میں انہوں نے وہ پورا سال گزارا تھا ،وہ خود جانتے ہیں یا ان کی بیوی جانتی ہے ۔اس طرح کے واقعات حیات انسانی میں گزرتے رہتے ہیں اور اب بھی گزر رہے ہیں ۔تو اس عذاب سے نکلنے کے لئے روحانی طور پر اللہ سے مدد مانگی جاسکتی ہے کیونکہ اس نے شک سے منع فرمایا ہے ۔
ہم اللہ سے مدد مانگ کر اس قسم کے کر بناک مرض سے باہر نکل سکتے ہیں۔اگر کبھی آپ کو ایسی مشکل درپیش ہو کہ ہم شک وشبہ یا ظن میں مبتلا ہو جائیں تو پھر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کراور اپنا آپ سارے کا سارا ڈھیلا چھوڑ کر خود کو اس کے حوالے کرکے اس کا حل تلاش کریں تو اس کا حل تلاش کرنا ممکن ہے۔


شک کا زہر


The great intellectual Ashfaq Ahmed mentioned an incident in his program "angle". He says that a friend of my friend Saeedullah was a professor of Psychology and went to London Ph.D. while he was doing PhD and there Three were four years old.
(PhD of this age was a difficult task), so strange to her wife went to an accident. When she went to drainage in the kitchen and watered the electric rod in water, it started to drain it, then at the same time The telephone bell was rising and he again dressed up the stairs and got rid of the telephone when he was called hello, he did not get any response, and with this incident the incident would be presented almost every day.

Professor informed the police there and the police started investigation and research.
When his friend went down for Professor's wife's grandma and she began to dance, then the bell rose up. The pupils picked up the phone, but no response was received.
The police went on asking for continued research in this regard. The professor had some inquiry on himself, and felt that the cowboy and the thick man whose legs were tied.
That's what the phone would do and he was also kind of kind.
So the police also stepped up its numbers. However
The person did not call the phone. Paulis also knew from the exchange but there was no confirmation of the call call at professor's numbers from there. The incident of Lindan was so popular that the media became a news of news.
It was mentioned in every small newspaper, morning and afternoon newspapers. For a period, the accused could not be arrested and the strange "thieves" could not find out who had professed Professor and his wife to China. Suddenly all sat down

The wife of Professor Sahib said, "Do not live in this country and go away from here because people here are miserable and slanderous and they are not going to be shining." Professor said, "I have a little bit of work." Hey, let's go if they finish.
His wife said, repay. Is there no life without PhD? When the professor, the pressure of the family, increased the pressure, then the PhD seemed to be completely drowned. I want madness and guidance.
That night when he was thinking about this, he decided that I re-examine it. Professor says he used to make a radio transistor at some time.
.
These transsters were called crystalline sets.
Which was rotated for a long time in April, etc., and sometimes some station was caught. It is about 32 thirtyth century .He used to know as much as his electronics knowledge was also What
So he kept the phone on the sound of his voice and he went down to bat down his wife, he voiced and said, "Bagmagh rajgalaga."
When the sound came, "Yeah," said Professor, "Look! Now the bell is boring!" And at the same time, the bell blew.

This professor started research and within six days he caught a thief. All the police could not be caught by police and all the constables. He caught the thief professor.
The thief was that when it was a lightning radius and the water was poured into it to boil, then the bell was at the same time.
On the basis of consideration, it was found that the wire was connected to the ground below the wire, which was connected to the electricity wire. It would be the power wire (Energise), he would also make the wire of the phone And because of this, the phone felt like a curry and started ringing the bell and no man was involved in it.

Present Sahib says that in the condition of a cricketer, he had spent the whole year, he knew himself or his wife. Such incidents live in the human and are still passing. Spiritual help can be asked for help because of which he has forbidden the suspicion.

We can ask Allaah for help from this kind of disease and if you ever feel difficult to suspect or feel suspicious, then keep the rope of Allah firmly strong. It is possible to find solutions for yourself by leaving all the loose loaves and finding solutions to it.