ایک حکایت،ایک حقیقت



اسلامیات کے استاد کلاس میں داخل ہوئے انہوں نے اپنے ہاتھ میں دبی ہوئی کتاب میز پر رکھی اور چشمے کو درست کرکے ناک پر جمایا اور ہلکے سے کھنکھار کر دسویں کلاس کے طالب علموں سے مخاطب ہوئے:میں تمہیں آج ایک ایسی حکایت سنارہا ہوں جو تمہاری آئندہ ساری زندگی میں کام آتی رہے گی۔
سب طالب علموں میں تجسس پیدا ہوگیا کہ آخر وہ کون سی حکایت ہے جسے ماسٹر صاحب سنائے جارہے ہیں سب طالب علموں توجہ سے ان کی بات سننے لگے۔استاد صاحب نے کہنا شروع کیا ایک بار ایک بدّو حضور ﷺ کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد بولا میں بہت دور سے آیا ہوں بھوکا پیاسا ہوں میرا اونٹ بھی بھوکا ہے۔
آپﷺ نے پوچھا وہ کہاں ہےَ“باہر کھڑا ہے اس نے جواب دیا میں اللہ پر توکل کرکے اسے باہر چھوڑ کر آپ کے پاس آگیا ہوں حضور نے فرمایا تم نے اونٹ کی ٹانگیں باندھیں کہیں دور نہ نکل جائے؟بدّو نے جواب دیا جی نہیں۔
جاؤ اور پہلے جاکر اونٹ کی ٹانگیں باندھو پھر اللہ پر توکل کرو۔

بدّو نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا اور پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔استاد نے تختہ سیاہ کے نزدیک ٹہلتے ہوئے کہا اس چھوٹی سی حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اللہ پر اعتماد اور بھروسا ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم پر جو فرائض عائد کیے گئے ہیں پہلے وہ پورے کرنا چاہیے۔
انہوں نے کچھ وقفے کے بعد کہا اگر کوئی طالب علم صرف دعا مانگتا رہے تو امتحان میں کامیاب نہیں رہ سکتا جب تک وہ کورس کی ساری کتابیں پڑھ کر تیاری نہ کرے،سب طالب علموں کو یہ حکایت پسند آئی وحید نے غالباً یہ واقعہ غور سے نہیں سنا اور اس خیال میں مدہوش رہا کہ اسے رات کو ایک شادی میں جانا ہے اور صبح کرکٹ میچ بھی ہے،اس نے شام کو امی سے پوچھا کہ شادی میں کب چلیں گی؟میری تو طبیعت خراب ہے انہوں نے کم زور لہجے میں کہا تم اور سلمیٰ چلے جاؤ تمہارے ابو کو راتوں کو جاگنا اور دیر سے کھانا، کھانا بالکل پسند نہیں ہے اپنے چچا شا کرکے گھر جانا اور سب مل کروہیں سے شادی میں شریک ہونا واپسی پر دیر ہوجائے تو چچا کے گھر ٹھہر جانا کل اتوار ہے اس لیے اسکول بھی نہیں جانا ہوگا مزے سے نیند پوری کرکے آنا۔
وہ نو بجے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چچا کے گھر پہنچ گیا سب تیار تھے وہ چچا شاکر کی گاڑی میں بیٹھ چل پڑئے بارات ساڑھے بارہ بجے آئی نکاح ایک بجے ہوا اور پھر کھانا ڈیڑھ بجے ختم ہوا جب سب گھر پہنچے تو رات کے ڈھائی بج رہے تھے سب کی آنکھوں میں نیند تھی۔
نیند تو وحید کی آنکھوں میں بھی تھی لیکن اس کے دماغ پر کرکٹ کا میچ بھی سوار تھا میچ اگلے دن نو بجے صبح ہونے والا تھا چناں چہ جب اس کے چچا شاکر نے اس سے ٹھیرنے کو کہا تو اس نے جواب دیا گھر زیاہ دور نہیں ہے سیدھا راستہ ہے آسانی سے گھر پہنچ جاؤں گامگر رات زیادہ ہوچکی ہے اس لیے جانا مناسب نہیں ہے انہوں نے سمجھانے والے انداز سے کہا خدانخواستہ کوئی واردات ہوسکتی ہے۔
وحید کے سر پر تو میچ سوار تھا اللہ مالک ہے اس نے کہا پھر موٹر سائیکل کی چابی اٹھائی اور ہیلمٹ اٹھا کر باہر آگیا ابھی اس نے تقریباً نصف میل کا فاصلہ طے کیا ہوگاکہ ایک تنگ گلی سے ایک لڑکا جو موٹر سائیکل پر سوار تھا اس کے پیچھے آنے لگا اس کے جسم پر چمڑے کی پتلون اور جیکٹ تھی عمر تقریباً بیس بائیس برس ہوگی وہ صورت شکل ہی سے جرائم پیشہ لگتا تھا اس نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا لیکن آگے نکلنے کی کوشش کی وہ لڑکا کافی دور تک اس کے پیچھے لگارہا وحید جس سڑک پر جارہا تھا یہ ٹریفک کے سامنے آنے والی سڑک تھی رات کے تین بجے تھے اس وقت سڑک پر ٹریفک نہیں تھا بائیں جانب پُل تھا جس پر کبھی کبھار دودھ سپلائی کرنے والوں کا ٹرک گزرجاتا تھا جو اس وقت سے سپلائی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
وحیدکے دل میں قرآنی آیات کا وِرد کرکے اللہ سے دعائیں مانگنے لگا کہ اے اللہ!مجھے حفاظت سے گھر پہنچادے تو بڑا غفور الرحیم ہے۔اس کے دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی اور جسم پسینے سے شرابور تھا وحید نے کئی بار اپنے ہاتھ ہیندل پھسلتے محسوس کیا اچانک سامنے سے اسے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا جس کی ہیڈلائیٹس سے آنکھیں چکا چوند ہوئی جارہی تھیں اب وہ اس جگہ پر پہنچ چکا تھا جہاں سے پل شروع ہوتا تھا وحید نے اپنے حواس سنبھالتے ہوئے موٹر سائیکل کو بائیں جانب گھمایا اور پل پر موٹر سائیکل دوڑانے لگا تاکہ جلد از جلد واپس چچا کے گھر پہنچ جائے وہ لڑکا جو ان کے پیچھے لگا ہوا تھا فوراً ہی ان کے پیچھے نہیں آسکا اس لیے کہ درمیان میں دودھ والے کا ٹرک آچکا تھا رات زیادہ ہوچکی تھی پل کافی لمبا تھا وحید نے سر گھما کر دیکھا وہ لڑکا اب اس کے پیچھے نہیں آرہا تھا غالباً یہ سوچ کر کہ اب وہ اسے نہیں پاسکتا لڑکے نے پیچھا کرنا چھوڑدیا تھا۔
چچا کے گھر پہنچنے تک وحید نے موٹر سائیکل نہیں روکی اور سیدھا دوڑاتا ہوا چلا گیا اس کا جسم پسینے پسینے ہورہا تھا اورہاتھ ہینڈل پر پھسل رہے تھے البتہ اب وہ اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔تھوڑی دیر بعد چچا کے فلیٹ کی گھنٹی بجی جب شاکر نے دروازہ کھولا تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئے پوری بات سننے کے بعد انہوں نے کہا تم سے پہلے ہی کہہ رہا تھاکہ رات یہیں رک جاؤ لیکن تم نے کسی کی سنی ہی نہیں تم نے حماقت کی نا؟وحید نے مجرموں کی طرح سر جھکالیا تیسرے دن جب وہ اسکول گیا تو اس نے اپنے دوستوں کو یہ واقعہ سنایا سب دم بخودرہ ہوگئے جب یہ بات اسلامیات کے استاد تک پہنچی تو وہ وحید کے پاس آئے اور بولے میں نے جو حکایت جمعہ کے دن سنائی تھی وہ غالباً تم نے غور سے نہیں سنی تھی؟تم نے اونٹ کی ٹانگیں نہیں باندھیں اوراللہ پر توکل پہلے کرلیا۔
وحید نے کوئی جواب نہیں دیااس کے پاس جواب دینے کے لیے تھا ہی کیا اس نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔





The teacher of Islam entered the class, he laid his hand on the table tables in his hand and healed the spoon and nourished the nose and waited lightly and spoke to the students of the tenth class: I am listening to you today a rule which is yours. Will be working in the next life.
All the students got tested that what the authority they are being given to the Master is being heard, all the students started to listen to them carefully. Azad Saheeh started saying once a person came to the Holy Prophet and greeted him. Afterwards, I have come far away from hunger, hungry, my camels are hungry too.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said, "Where is he, he stands out?" He replied, "I have come to you by excluding Allah and leaving him outside." He said, "Tie the camels of the camel."
Go and go first and tie the camel's legs then turn on Allah.

Buddha followed your guidance and then you came to serve Allah, then you arranged for her food. Azad stressed near the black plate and said, "This little ruler gets a lesson from us that Trust and trust must be done, but as well as the duties we have to do it should first be done.
After some break, he said after some break, if a student only asks for prayer, the test can not succeed unless he reads all the books of the course, all the students liked it. I did not listen to it and thought that she had to go to a wedding in the night and also got a cricket match in the morning, she asked Ami in the evening when she would go to the wedding? My nature is bad, she said in a loud voice. You and Salma leave your Abu Waiting for the nights and eating late, food is not like all the way, go by going to your house and get married to all the people. It is the last Sunday to be uncle's house if the non-refund is late, so the school should not even go to bed from sleeping.
He went to the uncle's house nine o'clock in the uncle's house. They were ready to sit in the uncle's shakir's car, and the ritual took place at one and a half o'clock at one o'clock, and then the food ended at around two and a half later. Everyone was sleepy in sleep.
The sleep was also in the eyes of Wahid but his match was also a rider on the match. The next day he was going to be in the morning at nine nights, when his uncle Shakir asked to turn away from him, he replied, "Ziaah is not far from home." It's a straight path to reach home. The gumper is overnight and it's not right to go home. It's a compassionate style that may be an impression.
He was riding on the head of Wahid, Allah is the owner. He said, then the key to the bike was raised and got out of the helmet, and he almost settled half a mile, a boy with a narrow street riding a bike. She came back and had leather pants and jackets on her body, she would have been around twenty twenty twenty years old, she thought of being a criminal, she did not say anything to her mouth, but tried to move that boy The road to which Wahid was going on the road, it was the road to the front of the traffic, it was three o'clock in the night, there was no traffic on the road. The ever would occasionally start to supply the milk truck was beyond the supply.
In the heart of Wahid, in the heart of Wahid, he prayed to Allah, saying, "O Allah! If I reach safely to the house, I am very angry." The heart of his heart was increased and he was wasted by body sweat, Waheed repeatedly stirred his hand. He suddenly realized that he had a truck coming from the headlights, which he had reached to the place where the bridge started. Wahid took his senses while moving the bike towards the left and on the bridge The bike was racing so that the boy reached the uncle's uncle as soon as the boy was behind him It was not enough to follow them because the milk truck was in the middle, the night was over. The bridge was quite tall, Waheed looked at the head and saw that the boy was not coming behind him, thinking that now he could not find him. Had left behind.
Wahid did not stop the bike until the uncle's house reached, and he went straight and his body was sweating and swept on the handle, but now he was giving thanks to God. When Shakir opened the door, he was surprised to see him, after hearing the whole thing, he said before you saying that stay here tonight, but you have not listened to anyone, you did not have foolishness. On the third day, when he went to school, he told his friends that the incident occurred when it reached the teacher of Islam. And came and said, The rule which I heard on Friday was probably not listening to you. You did not tie the camels' legs and preceded them.
Wahid did not respond. He had to answer, did he get embarrassed.